Sunday, August 23, 2009

بلوچستان ۔ حقائق کے آئینے میں 
کرنل غلام سرور 
برےگےڈےئر محمد اسماعےل صدےقی ، ادبی دنےا کا اےک معروف نام ہے۔اب تک ان کی چودہ کتابےں چھپ کر اہل فکر ونظر سے دادوتحسےن وصول کرچکی ہےں۔دواور کتابےں ، زےرطبع /زےر ترتیب ہےں۔وہ لکھتے ہےں، خوب لکھتے ہےں، اور بے تکان لکھتے ہےں۔عسکری موضوعات کے علاوہ ،انہوں نے اپنے گردوپےش کے ثقافتی اور تہذےبی روےوں کی بھی بھرپور عکاسی کی ہے۔زےر نظرکتاب بنےادی طورپراےک رپورتاژ ہے۔مگر ان کی جادوبےانی کاکمال ےہ ہے کہ انہوں نے اس رپورتاژ کو بھی ادب بنادےا ہے۔اور ساتھ ہی اسماعےل صدےقی کے اندرچھپاہوا،ادےب اور محقق بھی ابھر کر سامنے آگےا ہے۔ کتاب آئےنہ بلوچستان مےں انہوں نے بلوچستان کے باسےوں کو بڑے قرےب سے دےکھا ہے اور صرف دےکھنے پر اکتفانہےں کےا، بلکہ وہ اپنے قاری کو بھی اپنے ساتھ لے کر چلے ہےں۔ اس طرح انہوں نے اپنے پڑھنے والوں کو بھی بلوچستان کے باشندوں کے دکھ سکھ کو بہت قرےب سے دےکھنے کے مواقع فراہم کئے ہیں۔کتاب کی اےک اور امتےازی خوبی ےہ ہے کہ خوبصورت انداز مےں لکھی گئی ےہ تصنےف، بلوچستان کی ثقافتی، سماجی اور تہذےبی رواےات کی بھی بڑی خوبصورتی سے ترجمانی کرتی ہے، اور ساتھ ہی وہ اس صوبے کی جغرافےائی اور تزوےراتی اہمےت پر بھی سےر حاصل تبصرہ کرتی ہے۔ اس طرح بلوچ عوام کے نفسےاتی اورسماجی تجزےے کے ساتھ ساتھ کتاب مےں ہمےں بلوچستان کی جغرافےائی اور تزوےراتی سے بھی آگہی ملتی ہے۔اورمصنف کا انداز بےان اتنا خوبصورت ہے کہ پڑھنے والے پرسرمستی کی اےسی کےفےت طاری ہوجاتی ہے۔اور بے اختےار پکاراٹھتاہے” ےک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہےے“۔ کتاب کے ابتدائی حصے مےں، مصنف نے بلوچستان کے اقتصادی مسائل کا جائزہ اور ان کا ممکنہ حل تجوےز کےا ہے، اور انتہائی دانشمندی سے ان راہوں کی نشاندہی کی ہے،جو بلوچستان جےسے پسماندہ صوبے کو حقےقی عظمت کی منزل تک لے جاسکتی ہےں۔فاضل مصنف کے بقول ، مری بگتی مےں بسنے والے قبائل کو طوےل عرصہ اندھےروں مےں ٹھوکرےں کھانے کے بعد اب حال ہی مےں ےہ احساس ہوا ہے کہ ووٹ کااصل حقدار کون ہے، کےونکہ اس سے قبل توحق اور باطل کا فےصلہ ان کے سردار کےا کرتے تھے، ان سرداروں نے جملہ حقوق اپنے نام محفوظ کررکھے تھے۔اور انہےں ےہ خوش فہمی تھی کہ ان کا فرماےا ہوا، حرف ، حرف آخر ہے،اور وہ سند کا درجہ رکھتا ہے۔ قبائلی نظام کے خدوخال بےان کرتے ہوئے، برےگےڈےئرصدےقی مزےد لکھتے ہےں کہ ان سرداروں نے اپنے قبےلے کے غرےب اور پسماندہ عوام کو ےہی باورکراےا تھا کہ ان کی بہتری اور بقااسی مےں ہے کہ وہ تعلےم کے نزدےک بھی نہ پھٹکےں، کےونکہ فرنگےوں کالاےا ہوا علم نہ صرف انہےں،بلکہ ان کے تمدن کو بھی برباد کردےگا۔اس طرح ےہ عوام تارےکےوں مےں دھکےل دئےے گئے۔اورتارےکی مےں رہتے ہوئے ، تارےکی کو ہی روشنی سمجھنے لگے ہےں۔ مصنف کے خےال مےں ان دبےزتہوں کو اترنے مےں خاصاوقت لگے گا۔اورعلم کی روشنی پھےلنے مےں عرصہ لگے گا۔کےونکہ ےہ اےک مسلمہ امرہے۔صدےوں کی تارےکی آن کی آن مےں دور نہےں ہوسکتی۔وےسے ےہ امر خوش آئندہ ہے کہ جہاں ، جہاں علمی بالخصوص اسلامی تعلےمات کا چرچا ہے، وہاں سے مسلمان کندن بن کے نکلے ہےں، اوران کے دلوں مےں اسلام کے لئے بے پاےاں شےفتگی دکھائی دےتی ہے، اور انہےں اپنے وطن سے بھی بے پاےاں عقےدت ہے،اوروہ سرعام، بغےر کسی ذہنی تحفظ کے اعلان کرتے ہےں کہ وہ جو کچھ ہےں، پاکستان کے طفےل ہےں، اور اس کی خوشحالی مےں ہی ان کی خوشحالی کا راز مضمر ہے۔ ”دردمنت کش دوانہ ہوا“ کے زےر عنوان ، برےگےڈےئر صدےقی قبائلی سرداروں کے حوالے سے لکھتے ہےں کہ تارےخ گواہ ہے کہ ماضی مےں قبائلی عوام نہ صرف اپنے سرداروں کے حکم کے سامنے سر تسلےم خم کردےتے تھے، بلکہ اپنے سر بھی کٹوادےتے تھے۔ اور سرداروں نے اپنے قبائل کے اس خراج عقےدت کی قےمت، باہروالوں سے وصول کی، اور خوب جی بھرکے وصول کی۔مراعات کی شکل مےں، نوازشات کی شکل مےں ، نقدی کی شکل مےں، مگر جان ہتھےلی پر رکھنے والوں کو کچھ نہےں ملا۔ اب حالات نے پلٹا کھاےا ہے، اورآج ضرورت اس امر کی ہے کہ صدےوں سے محرومی کی شکار اس قوم پر ملک کے ارباب اقتدار اوراےسے احباب کی نظر کرم ہو، جو ےہاں کے لوگوں کی خدمت کرسکےں۔ مگر اس کا کےا علاج کہ چارسو بے حسی کا عالم ہے۔اس حوالے سے لازم ہے کہ اقتصادی ترقی کو ےقےنی بناےا جائے تاکہ انفرادی وسائل کو بروئے کار لاےا جاسکے، اور بلوچستان کے ساحل پر موجود ان علاقوں پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے، جن مےں بندرگاہ بننے کی صلاحےت ہے۔اےسا ہوجائے تو پسماندگی مےں پسے ہوئے بلوچی عوام کی تقدےر مےں انقلابی تبدےلےاں رونما ہوسکتی ہےں۔اور ان وسائل سے حاصل کی ہوئی ترقی ، ترقی معکوس نہےں ہوگی، بلکہ تمناﺅں کی تکمےل اور خوابوں کی تعبےر کی جانب اےک قدم ہوگا۔ گوادر کے حوالے سے برےگےڈےئر صدےقی کا تجزےہ، حقےقت پسندانہ ہے، انہےں اس بات کااطمےنان ہے کہ دےر سے سہی، اب ارباب اقتدار پر گوادر کی بندرگاہ کی اہمےت اجاگر ہوئی ہے۔اور انہوں نے نہ صرف اس کے بارے مےں سوچنا شروع کردےا ہے، بلکہ ان سوچوں کو عملی جامہ پہنانا بھی شروع کردےا ہے۔اورچےن نے اس بندرگاہ کی اسٹرٹےجک اہمےت کااچھی طرح اندازہ لگالےا ہے اور ےہی وجہ ہے کہ اس کی تکمےل کی غرض سے اربوں ڈالر کی Investmentکرنے کو تےارہوگیا ۔گوادر کی ےہ تعمےر وترقی صرف اس کی بندرگاہ کی سہولتوں کو بہتر بنانا نہےں تھی، بلکہ اےک بارمکمل ہوجانے سے اسے بذرےعہ سڑک افغانستان اور کئی وسطی اےشےاءکی رےاستوں تک ملاناتھا، اس کے علاوہ چےن اور شمالی ہندوستان کو اس سے منسلک کرنا تھا۔ اس مےں شک نہےں کہ گوادر کی کامےابی کاانحصار بڑی حد تک بلوچستان مےں استحکام اور بالخصوص پاکستان کی سالمےت پر منحصر ہے۔ المختصر ،مصنف نے انتہائی اختصار سے کام لے کر حقائق کی بوقلمونی کونوک قلم سے آشنا کردےا ہے، اور بلوچستان کی متنوع زندگی کے مختلف پہلوﺅں کو خوبصورتی سے اجاگر کےا ہے۔اس خوبصورت کاوش پر ہم فاضل مصنف کو ہدئےہ تبرےک پےش کرتے ہےں۔ (آئےنہ بلوچستان ، دوست پبلکےشنز نے اسلام آباد، لاہور، کراچی سے شائع کی ہے۔231صفحات کی کتاب کی قےمت260/=روپے ہے)۔

No comments:

Post a Comment