Thursday, September 10, 2009

بلوچ عوام کے زخموں پر مرہم لگانے کیلئے تمام وعدے پورے کرینگے،آصف زرداری

جمعرات ستمبر 10, 2009

nullاسلام آباد ( وقائع نگار خصوصی ، ایجنسیاں ) صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ بلوچ عوام کے زخموں پر مرہم لگانے کے لئے ان کے ساتھ کئے جانے والے وعدوں کو ہر صورت پورا کیا جائے گا، بلوچستان کو ترقی دے کر قومی دھار ے میں لانے سمیت صوبے کی تمام ضروریات کو پورا کیا جائے گا، بلوچ محب وطن پاکستانی ہیں پارلیمانی کمیٹی برائے بلوچستان کی سفارشات پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے گا ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایوان صدر میں گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی سے ملاقات کے دوران کیا جس میں صوبے میں امن و امان کی صورتحال، بلوچستان کے ترقیاتی منصوبے، ٹار گٹ کلنگ اور دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا گیا ملاقات کے دوران صدر آصف زرداری نے کہا کہ بلوچستان کا احساس محرومی ختم کرنے کے لئے ان کے تمام مسائل کو حل کرنے سمیت صوبے کو مالی طور پر مضبوط بنایا جائے گا جبکہ حکومت نے پہلے ہی بلوچستان کی ترقی کیلئے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا ہوا ہے جسے بروقت مکمل کیا جائے گا ذرائع کا کہنا تھا کہ ملاقات کے دوران گورنر بلوچستان نے صوبے میں امن و امان اور ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے صدر پاکستان کو آگاہ کیا ایوان صدر میں آسٹریلیا کے لئے نامزد ہائی کمشنر مسز فو ز یہ نسرین ، ازبکستان اور تھائی لینڈ کے لئے نامزد سفراء محمد واجد الحسن اور سہیل محمود نے اپنی نئی سفارتی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لئے متعلقہ ممالک روانگی سے قبل صدر سے ملاقات کی صد ر نے کہا کہ بیرون ممالک متعین پاکستانی ہائی کمشنر اور سفراء پاکستان کا امن پسند تشخص کو اُ جا گر کرنے اور ملک میں اقتصادی و توانائی بحران کے خاتمے کے لئے کوششیں تیز کریں جبکہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کے فروغ اور باہمی تجارتی حجم میں اضافے کے لئے اقدامات کئے جائیں اِ س موقع پر صدر زرداری نے کہا کہ نئی ہائی کمشنر اور سفراء متعلقہ ممالک کی حکومتوں کے ساتھ دوستانہ روابط کے فروغ کے لئے کام کریں خاص طور پر بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی ہر ممکن مدد کی جائے جو ملک کو تر سیلات زر کی فراہمی اور زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے لئے انتہائی اہم کردار ادا کر رہے ہیں جبکہ تمام ممالک کے ساتھ معاشی و اقتصادی سطح پر بہترین تعلقات اور بیرونی سرمایہ کاری کو پاکستان کی جانب سے راغب کرنے کی ضرورت پر زور دیا ۔ آسٹریلیا کے لئے نامزد ہائی کمشنر سے ملاقات میں صدر کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا ایشیا کا انتہائی اہم ملک ہے جہاں مقیم 5ہزار پاکستانیوں کی فلاح و بہبود کے لئے اقدامات، پاک آسٹریلیا باہمی تجارت، پاکستان میں آسٹر یلو ی سرمایہ کاری کے فروغ، زراعت ، کان کنی ، پھلوں کی پرو سسنگ اور توانائی شعبے تعاون بڑھانے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کو یقینی بنائیں جبکہ آسٹریلیا میں پاکستانی طلباء کے لئے زیادہ سے زیادہ و ظا ئف کے حصول کو یقینی بنایا جائے تا کہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے خواہشمند طلباء فائدہ اُ ٹھا سکیں ازبکستان کے لئے نامزد سفیر کو پاک ازبک معاشی و اقتصادی تعلقات اور باہمی تجارتی حجم میں اضافے کے لئے سنجیدہ اقدامات کرنے کے لئے اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی ہدایت کی اور کہا کہ وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ پاکستان دیرینہ روابط میں بندھا ہے جو صدیوں پر محیط ہیں جبکہ پاک ازبک انسداد دہشت گردی میکا نزم کو مضبوط بنانے کے لئے سفیر اپنا بھر پور کردار ادا کریں تھائی لینڈ کے لئے نامزد سفیر سہیل محمود سے گفتگو کرتے ہوئے صدر نے کہا کہ پاکستان ایشیا ئی ممالک خصو صا آسیان ممبر ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو انتہائی اہمیت دیتا ہے اور نامزد سفیر آسیا ن ممالک کے ساتھ تجارتی ، اقتصادی و معاشی تعلقات کے فروغ کے لئے بہترین صلاحتیں بروئے کار لائیں دریں اثنا ء برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ دنیا وسائل مہیا کرے تو طالبان کے خلاف جنگ کو مزید علاقوں تک پھیلا سکتے ہیں پاکستان عالمی دہشت گردی میں اپنے مبینہ کردار کو درست کرنے کی کوشش کر رہا ہے جمہوریت کام کر رہی ہے ہم اختیار حاصل کر رہے ہیں ہم نے سیاسی ذمہ داری حاصل کر لی ہے چند گنے چنے لوگوں کے مقابلے میں پاکستان کے عوام دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے ساتھ ہیں ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو ایوان صدر میں برطانوی نشریاتی ادارے کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کیا ۔انٹرویو میں صدر آصف علی زرداری نے اپنی ایک سالہ کاکردگی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی فوج، ان کی حکومت اور جمہوریت نتائج دے سکتے ہیں لہذ ا دنیا کو چاہیے کہ وہ ان کی مزید مد کریں ہماری کوشش یہ ہے کہ اس ایک سالہ کوشش کا اعتراف کیا جائے اسے تسلیم کیا جائے کہ ہاں پاکستانی فوج، پاکستانی حکومت اور جمہوریت نتائج دی سکتے ہیں لہذ ا ان کی مزید امداد کی جائے انہوں نے برطانوی پولیس کے پاکستان میں آکر کارروائی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگر وہ ان کی پولیس سے بہتر ہوتے تو وہ ضرور اس تجویز کو قبول کر لیتے لیکن ایسا نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں سب سے بڑا مسئلہ وسائل کا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر دنیا انہیں وسائل مہیا کرے تو وہ طالبان کے خلاف جنگ کو مزید علاقوں تک پھیلا سکتے ہیں۔اسامہ بن لادن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہلاک ہوچکے ہیں۔افغانستان کا ذکر کرتے ہوئے صدر نے مطالبہ کیا کہ گزشتہ ہفتے کندوز میں ہونے والے حملے سے ہلاکتوں کی عالمی سطح پر تحقیقات کروائی جائیں۔ ایک افغان حقوق انسانی کی تنظیم کے مطابق اس حملے میں ستر عام شہری مارے گئے تھے۔صدر کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ادارے افغانستان میں موجود ہیں اور ماضی میں بھی وہ اس قسم کی تحقیقات کر چکی ہیں۔افغان صدارتی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بارے میں صدر کا کہنا تھا کہ ابھی ان الزامات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ تاہم انہوں نے صدر کرزئی کی حمایت کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ وہ خود ان کی اگلی مدت کے لیے حلف برداری کی تقریب میں موجود ہوں گے اپنے دور حکومت کے دوران اپنی سب سے بڑی کامیابی کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’یہ تاریخ اور وقت ہی بتائے گا‘ صدر نے بتایا کہ وہ رواں ماہ امریکی صدر بار اک او با ما اور برطانوی وزیراعظم گور ڈن بر اؤن کے ہمراہ نیو یارک میں فرینڈز آف پاکستان کے سربراہی اجلاس کی مشترکہ صدارت کریں گے جو پاکستان کو درپیش چیلنجوں اور خطے کے مسائل حل کرنے کے لیے ایک سیاسی پلیٹ فارم ثابت ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ دنیا کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کو دہشت گردی اور انتہا پسندی سے پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کرے طالبان کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ان پر قابو پانا دنیا کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ صدر نے گلگت بلتستان پیکیج کے حوالے سے بعض حلقوں کے اعتراض کو کہ اس سے کشمیر کا ز کے لیے کوششیں ختم ہو جائیں گی بلاجو از قرار دیا

Sunday, September 6, 2009

وفاق اور بلوچستان میں خلیج بڑھ سکتی ہے؟

Friday, 10 April, 2009, 09:02 GMT 14:02 PST

وفاق اور بلوچستان میں خلیج بڑھ سکتی ہے؟

مظاہرہ

نواب اکبر بگٹی اور بالاچ خان مری کی ہلاکت کے بعد جس طرح صوبے بھر میں بے ساختہ ہنگامے ہوئے لیکن اب کی بار اس سے بھی زیادہ شدت سے احتجاج ہو رہا ہے: ڈاکٹر نعمت اللہ

پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں تین قوم پرست رہنماؤں کے قتل سے جمہوری حکومت کی سیاسی مصالحت کی کوششوں کو جہاں بڑا دھچکہ پہنچا ہے وہیں یہ واقعہ مسلح مزاحمت کو مزید تقویت بخشنے کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔

غلام محمد بلوچ، لالہ منیر اور شیر محمد بلوچ کو تربت کی ضلعی عدالتی احاطے سے سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد نے گزشتہ جمعہ کو اغوا کیا اور بدھ کی شب ان کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں۔

جمعرات اور جمعہ کو بلوچستان بھر میں ان ہلاکتوں کے خلاف ہنگامے ہوئے، سڑکیں اور بازار بند کروائے گئے اور توڑ پھوڑ کی گئی۔ تین رہنماؤں کے قتل پر بلوچستان کے علاوہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے بلوچ آبادیوں والے علاقوں میں بھی احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔

بلوچستان کے ایک ماہر تعلیم اور دانشور ڈاکٹر نعمت اللہ گچکی کہتے ہیں کہ نواب اکبر بگٹی اور بالاچ خان مری کی ہلاکت کے بعد بھی صوبے بھر میں ہنگامے ہوئے لیکن اس بار اس سے بھی زیادہ شدت سے احتجاج ہو رہا ہے۔ پنجگور سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر نعمت اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ تینوں مقتول بلوچ رہنما نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور بلوچ نوجوانوں میں اپنے کردار کے حوالے سے بے حد مقبول تھے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جو آگ لگی ہوئی ہے وہ ان ہلاکتوں سے بھڑک اٹھے گی کیونکہ یہ واقعہ جلتی پر تیل کا کام کرے گا۔

ان کے مطابق ’ہمارے نوجوان اور ہم جیسے بزرگ جو جمہوریت کی بات کرتے ہیں، ان پر برہم ہیں اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ہاتھوں اس طرح کے قتل سے علیحدگی کی سوچ پروان چڑھے گی۔ اور یہ واقعہ حکومت کی مصالحت کی کوششوں کو ناکام بنادے گا۔۔۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی طاقتور قوتوں کو بلوچستان سے جان چھڑانے کی بڑی جلدی ہے۔‘

ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی طاقتور قوتوں کو بلوچستان سے جان چھڑانے کی بڑی جلدی ہے۔

ڈاکٹر نعمت اللہ

بلوچستان کے سیاسی رہنماؤں سینیٹر حاصل بزنجو اور سردار اختر مینگل سمیت اکثر نے تین بلوچ رہنماوں کے قتل کا الزام پاکستان کی انٹیلیجنس ایجنسیوں پر لگایا ہے لیکن فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے ان ہلاکتوں پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ملک دشمن عناصر کی کارروائی ہے۔ انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ قتل کے اس واقعہ سے حکومت کی مصالحتی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔ ان کے مطابق افواج پاکستان بلوچستان میں امن و امان کی کوششوں کی حمایت کرتی ہیں۔ ترجمان نے ان رہنماؤں کے ان بیانات پر افسوس ظاہر کیا جس میں بغیر حقائق جانے قتل کا الزام سیکورٹی ایجنسیز پر لگایا گیا ہے۔

فوجی ترجمان کے بیان پر بعض مبصرین کی رائے ہے کہ اس سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ یہ پاکستان کے بیرونی دشمنوں کی سازش ہو سکتی ہے لیکن اس صورت میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ تربت کے شہر سے تین رہنماؤں کو غیر ملکی ایجنٹ دن دہاڑے اغوا کر لیں۔ ان کے مطابق اگر ایک لمحے کے لیے یہ فرض بھی کیا جائے تو پھر یہ تو پاکستان کی تمام سکیورٹی ایجنسیوں کی ناکامی ہے کہ ایک دشمن ملک کے کارندے ایسا کرلیں۔

فوجی قیادت کا جو منتخب حکومت کے ساتھ ہنی مون تھا وہ ختم ہوتے نظر آرہا ہے اور اس سے حالات مزید خراب ہوں گے۔۔۔ یہ واقعہ بہت بڑی تبدیلی کا سبب بن سکتا ہے۔۔۔ وفاقی حکومت نے بھی ایک سال گزر گیا کچھ نہیں کیا۔۔۔ ایک دو سردار اور ان کے بچوں کو چھوڑ دیا لیکن سینکڑوں غریب گمشدہ بلوچوں کے لیے کچھ نہیں کیا۔

صدیق بلوچ

بلوچستان کے ایک سینیئر صحافی اور تجزیہ کار صدیق بلوچ کہتے ہیں کہ ’تین نوجوانوں کو ریاستی تحویل میں قتل کیا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ سویلین اداروں نے تو انہیں قتل نہیں کیا۔۔ بلوچستان کے گورنر خود کہتے ہیں کہ یہ دہشت گردی ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ ’فوجی قیادت کا جو منتخب حکومت کے ساتھ ہنی مون تھا وہ ختم ہوتا نظر آرہا ہے اور اس سے حالات مزید خراب ہوں گے۔۔۔ یہ واقعہ بہت بڑی تبدیلی کا سبب بن سکتا ہے۔۔۔ وفاقی حکومت نے بھی ایک سال گزر گیا کچھ نہیں کیا۔۔۔ ایک دو سردار اور ان کے بچوں کو چھوڑ دیا لیکن سینکڑوں غریب گمشدہ بلوچوں کے لیے کچھ نہیں کیا‘۔ یاد رہے کہ بلوچستان میں سنہ دو ہزار سے ملٹری انٹیلیجنس پر مبینہ طور پر بلوچ نوجوانوں کو اغوا اور قتل کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔

تین بلوچ رہنماؤں کے قتل سے بظاہر لگتا ہے کہ بلوچستان میں جاری سیاسی تحریک اور مسلح مزاحمت کو مزید تقویت ملے گی اور ان لوگوں کی سوچ کو فروغ مل سکتا ہے جو سمجھتے ہیں کہ پارلیمانی سیاست سے حقوق حاصل نہیں ہو سکتے۔

ڈاکٹر نعمت اللہ کہتے ہیں ’ہم جب جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو نوجوان پہلے ہی ہم پر ناراض ہوتے تھے اور اب اس طرح کے واقعات سے ہم جیسے لوگوں کی کوئی نہیں سنے گا اور بات دوسری طرف نکل جائے گی۔‘

کچھ مبصرین کی رائے ہے کہ صوبے کے قدرتی وسائل پر بلوچستان کا حقِ مالکیت تسلیم کرانے کی خاطر سرگرمِ عمل بعض بلوچ قومپرست رہنما جس طرح اپنے تین ساتھیوں کے قتل کا الزام ریاستی اداروں پر لگا رہے ہیں اس سے وفاق اور بلوچستان میں پہلے سے موجود اختلافات کی خلیج بھی بڑھ سکتی ہے۔

بلوچوں کو سمجھاؤ

: Sunday, 12 april, 2009, 13:27 GMT 18:27 PST

بلوچوں کو سمجھاؤ!

قوم پرست رہنماؤں کے قتل پر بلوچستان بھر میں پرتشدد مظاہرے ہوئے ہیں

چلیے مان لیا کہ بلوچستان میں جو بھی بدامنی ہے اس کے پیچھے بھارت کا اسلحہ، تربیت اور پیسہ ہے تا کہ کشمیر کا سکور برابر کیا جاسکے اور پاکستان کو مشرق اور مغرب سے گھیرا جا سکے۔ اور یہ کہ اس منصوبے کو امریکہ اور بعض امریکہ نواز خلیجی ممالک کی بھی خاموش تائید حاصل ہے۔

اگر یہ بات پچاس فیصد بھی درست ہے تو بھی بڑی خطرناک بات ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے کچھ فوری اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

یوں کریں کہ بلوچستان میں پچھلے آٹھ برس میں جتنے بھی زن و مرد غائب ہوئے ہیں انہیں تلاش کر کے کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے تاکہ سولہ کروڑ پاکستانیوں کی یہ دیکھ کر آنکھیں کھل جائیں کہ کیسے کیسے لوگ غیرملکی ایجنٹ بنے ہوئے تھے۔ اس سے ان عناصر کا منہ بھی بند ہوجائے گا جو آنکھ بند کر کے کہہ دیتے ہیں کہ لوگوں کو سرکاری ایجنسیاں غائب کررہی ہیں تاکہ بلوچستان کے وسائل پر قبضے کی مخالف آوازوں کو خاموش کیا جاسکے۔

اس سے پہلے کے غلام محمد بلوچ ، شیرمحمد بلوچ اور لالہ منیر کی لاشوں کو تربت کے ویرانوں میں پھینکنے والے پاکستان دشمن سرحد پار افغانستان یا بھارت فرار ہوجائیں انہیں پکڑنے کے لیے پوری طاقت لگا دی جائے تاکہ آئندہ ایسے کام کرنے والے غیرملکی ایجنٹ دس بار سوچیں۔

نئی نسل کو اس پروپیگنڈے سے بھی بچایا جائے کہ نواب اکبر بگٹی کو مشرف حکومت نے مارا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مشرف حکومت نواب صاحب کو عزت و احترام سے ڈیرہ بگٹی لانا چاہتی تھی۔لیکن یہ نواب بگٹی تھے جنہوں نے خود پر پہاڑ گرا لیا۔تاکہ وہ مرتے مرتے بھی وفاق کے خلاف بغاوت کا الاؤ روشن کر جائیں۔

چونکہ بلوچستان کے وزیرِ اعلی اسلم رئیسانی اور وفاقی وزیر میر اسرار اللہ زہری نے بلوچستان میں غیرملکی اشاروں پر امن تباہ کرنے والوں سے اظہارِ یکجہتی کیا ہے اس لیے انہیں فوری طور پر برطرف کرکے محبِ وطن بلوچستانیوں کے دل جیتے جائیں۔ اسی طرح بلوچستان کے قوم پرست رہنماؤں اختر مینگل ، حاصل بلوچ اور سپریم کورٹ بار کونسل کے صدر علی احمد کرد پر بغاوت کا مقدمہ چلایا جائے کیونکہ ان تینوں نے قوم پرست رہنماؤں کے قتل کا الزام بلاتحقیق سرکاری ایجنسیوں پر عائد کیا ہے۔اور یوں یہ رہنما غیرملکی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیلے ہیں۔

وقت آگیا ہے کہ بلوچستان کی نئی نسل کو شرپسندوں کی برین واشنگ سے بچانے کے لیے تعلیمی نصاب اور سرکاری ذرائع ابلاغ کا بھرپور تعمیری استعمال کیا جائے۔ اس نسل پر یہ حقیقت واضح کی جائے کہ بلوچستان جو پاکستان بننے سے پہلے ریاست قلات تھی، اسے زبردستی فیڈریشن میں شامل ہونے پر مجبور نہیں کیا گیا تھا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ خان آف قلات نے پاکستان میں شمولیت کے لیے روتے ہوئے گڑگڑا کر یہ کہتے ہوئے درخواست کی تھی کہ حضور اگر قلات پاکستان میں شامل نہیں ہوا تو ہم بلوچ کہیں کے نہیں رہیں گے۔

یہ حقیقت بھی نصاب کا حصہ بنائی جائے کہ ایوب خان نے باغی نواب نوروز خان اور ان کے ساتھیوں کو قران پر وعدہ کرنے کے باوجود پھانسی نہیں دی تھی بلکہ نواب نوروز خان اپنی بغاوت پر اتنے پشیمان تھے کہ انہوں نے مارے غیرت کے خود ہی اپنے گلے میں پھندا ڈال لیا۔

گرچہ بلوچستان کے عوام کی اکثریت ہمیشہ سے مٹھی بھر شرپسندوں کے خلاف رہی ہے۔ لیکن وقت آگیا ہے کہ اب اس سوال پر صوبے میں ریفرینڈم کروایا جائے کہ کیا آپ بلوچستان کے لیے اب تک کیے گئے ترقی و فلاح و بہبود کے اقدامات سے خوش ہیں؟؟؟ امید ہے کہ اس ریفرینڈم کے نتائج سے شرپسندوں کا رہا سہا اخلاقی دیوالیہ بھی نکل جائے گا۔

اور یہ بھی کہ وفاقی حکومت نے ماضی کی بے وفائیوں کو معاف کرتے ہوئے جب سن ستر کی دہائی میں بلوچ قوم پرستوں کو صوبے میں حکومت بنانے کا موقع دیا تو انہوں نے سوویت یونین اور بھارت سے مل کر علیحدگی کی سازش شروع کردی۔ لہذٰا بھٹو حکومت کو مجبوراً اس غداری کے خلاف پاکستان کے مفاد میں مسلح ایکشن لینا پڑ گیا اور عطا اللہ مینگل اور نواب خیر بخش مری جیسے عناصر کو سزا دینی پڑی۔

نئی نسل کو اس پروپیگنڈے سے بھی بچایا جائے کہ نواب اکبر بگٹی کو مشرف حکومت نے مارا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مشرف حکومت نواب صاحب کو عزت و احترام سے ڈیرہ بگٹی لانا چاہتی تھی۔لیکن یہ نواب بگٹی تھے جنہوں نے خود پر پہاڑ گرا لیا۔تاکہ وہ مرتے مرتے بھی وفاق کے خلاف بغاوت کا الاؤ روشن کر جائیں۔

اگرچہ بلوچستان کے عوام کی اکثریت ہمیشہ سے مٹھی بھر شرپسندوں کے خلاف رہی ہے۔ لیکن وقت آگیا ہے کہ اب اس سوال پر صوبے میں ریفرینڈم کروایا جائے کہ کیا آپ بلوچستان کے لیے اب تک کیے گئے ترقی و فلاح و بہبود کے اقدامات سے خوش ہیں؟؟؟ امید ہے کہ اس ریفرینڈم کے نتائج سے شرپسندوں کا رہا سہا اخلاقی دیوالیہ بھی نکل جائے گا۔

اس سوال پر بھی تحقیق ہونی چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا کہ مشرقی پاکستان کے ننانوے فیصد وفاق پرست عوام پر ایک فیصد پاکستان دشمن غالب آگئے حالانکہ پاکستان کی ہر حکومت نے مشرقی پاکستان کی ترقی اور فلاح و بہبود میں کبھی غفلت نہیں برتی۔

اس تحقیق کے نتائج کی روشنی میں وفاقی حکومت بلوچستان میں بھارتی اور امریکی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکے گی۔ دیکھیے جلدی سے ان تجاویز پر عمل کرلیجئے کہیں یہ نہ ہو کہ

مہلت تھی جب تو دل کو تھا بے کاریوں سے شغل
اب کام یاد آئے تو ، مہلت نہیں رہی !

Sunday, August 23, 2009

بلوچستان میں وسیع پیمانے پر زمینی آپریشن کا فیصلہ کرلیا گیا


بلوچستان کی صوبائی حکومت نے سانحہ مہمند آباد میں شہید ہو نے والے 20پولیس اہلکاروں کے قاتلوں کے خلاف وسیع پیمانے پر زمینی آپریشن کا فیصلہ کرلیا 

فرنٹیئر کور بلوچستان کانسٹیبلری اور اینٹی ٹیررسٹ فورس کی بڑی تعداد پولیس کی مدد کے لئے نصیر آباد روانہ کر دی گئی ہے

ڈیرہ مراد جمالی ۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت نے سانحہ مہمند آباد میں شہید ہو نے والے 20پولیس اہلکاروں کے قاتلوں کے خلاف وسیع پیمانے پر زمینی آپریشن کا فیصلہ کرل یا ہے فرنٹیئر کور بلوچستان کانسٹیبلری اور اینٹی ٹیررسٹ فورس کی بڑی تعداد پولیس کی مدد کے لئے نصیر آباد روانہ کر دی گئی ہے راکٹ لانچرز بکتر بند گاڑیاں اور بلٹ پروف جیکٹس بھی پہنچانا شروع کر دی گئی ہیں ایک ہفتے کے اندر فیصلہ کن کاروائی شروع کر دی جائے گی اس بات کا اظہار ڈی آئی جی سبی نظیر آباد پولیس غلام شبیر شیخ نے ڈیرہ مراد جمالی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ڈی پی او نصیر آباد نذیر احمد کر د سینئر پولیس آفیسر علی اکبر مگسی بھی اس موقع پر موجود تھے ڈی آئی جی نے کہا کہ شہریوں کی جان و مال کی حفاظت اور نجی و قومی املاک اور تنصیبات کے تحفظ اور حکومتی رٹ کو بحال رکھنے کے لئے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف سخت ترین کاروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ جو لوگ جرائم کے پیشہ عناصر کو سرپرستی یا مدد کرتے ہیں وہ بھی مجرم ہیں ان کو کسی بھی صورت معاف نہیں کیا جائے گا انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اغواء کاروں نے یر غمال کئے جانے والے پولیس اہلکاروں کو شہید کر کے اسلامی اقدار اور بلوچی و قبائلی روایات کی سنگین خلاف ورزی کر تے ہوئے انتہائی بزدلانہ فعل کا مظاہرہ کیا ہے ان کو ہر حال میں قانون کے شکنجے میں لایا جائے گا انہوں نے کہا کہ اگر جرائم پیشہ عناصر ایک گولی چلائیں گے تو پولیس جوابی کاروائی 100 گولی اور ایک راکٹ لانچر کے جواب میں دس راکٹ لانچر جلائے گی انہوں نے کہا کہ حکومت نے شہید ہو نے والے پولیس اہلکاروں کی 60 سال کی عمر کی حد تک ان کے لواحقین کو فی کس 10لاکھ روپے اور زخمیوں کے علاج کے لئے ایک لاکھ روپے اور شہید کوٹہ سے شہید اہلکاروں کے ورثاء کو ایک ایک ملازمت اور شہید اہلکاروں کی 60 سال کی عمر کی حد تک ان کے لواحقین کو تنخواہ فراہم کر نے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ کمشنر نصیر آباد ڈویژن ڈاکٹر ثاقب عزیز نے سانحہ چھتر کے شہید پولیس اہلکاروں کے لواحقین کے لئے ڈیرہ مراد جمالی میں رہائشی پلاٹس مفت فراہم کر نے کا اعلان کیا ہے

بلوچستان........ اغیار کی حریصانہ توجہ کا مرکز
کرنل غلام سرور 
معروف دانشور جاویدانور کے بقول ڈالر کے ”بلیک کنگ“ یا ”کالی دیوی“ کا اصل نشانہ بلوچستان ہے۔ صوبہ بلوچستان پاکستان کے کل رقبے کے 48 فیصد پر محیط ہے۔ مگر ملک کی صرف 4 فیصد آبادی یہاں بستی ہے۔ بلوچستان کے معدنی دولت کی فراوانی کا یہ عالم ہے کہ اس کی زمین میں پوشیدہ جملہ خزانوں کے ساتھ ساتھ یورینیم جیسے معدنی خزانے بھی موجود ہیں۔ اس کی زمینوں کے نیچے سیال سونا بھی بہتا ہے اور اس سیال سونے کی صرف ایک ذیلی پیداوار وہ گیس ہے جس پر وطن عزیز کے بیشتر کارخانوں کا انحصار ہے اور جس کی بدولت ہماری بستیوں کے گھروں میں چولہے جل رہے ہیں۔ بلوچستان میں چین کی مدد سے تیار کردہ گوادر پورٹ کو ملکی معیشت میں انتہائی اہمیت حاصل ہے اور اس کی جغرافیائی اور تزویراتی اہمیت کے پیش نظر پاکستان دشمن طاقتوں پر خوف اور سراسیمگی کی کیفیت طاری ہے اس گوادر پورٹ نے بحیرہ عرب کے تین ساحلوں کو اپنے قریب کردیا ہے۔ اس کی اسی اہمیت کے پیش نظر عالمی سطح پر امریکی ایماءپر اس طرح کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے کہ بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرکے اسے عملی اعتبار سے امریکا کی بالادستی میں دے دیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کو پاکستان سے کاٹ کر امریکی تحویل میں دینا اس عظیم عالمی سیاسی کھیل کا حصہ ہے جسے گلوبلائزیشن (Globalization) کے ماہر اور کتابوں کے مصنف پیپ سکوبار (Pep Escobar) نے بڑی تفصیل سے امریکا کے اصل عزائم کو طشت ازبام کرتے ہوئے اپنے ایک حالیہ مضمون میں Pipelistan کی سیاست پر روشنی ڈالی ہے اور کہا ہے کہ یہ دراصل ایپی ٹاپی (Ipi Tapi) کے مابین جنگ ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ ایران پاکستان اور بھارت کے مابین مجوزہ پائپ لائن منصوبے کو (Peace pipeline) بھی کہا جاتا ہے طے شدہ پروگرام کے تحت پائپ لائن نے بلوچستان سے گزر کر بھارت کا رخ کرنا تھا مگر امریکا اس منصوبے کا شروع سے ہی مخالف رہا ہے۔ اس کی بجائے وہ ٹاپی (Tapi) پر عمل درآمد چاہتا ہے جو ترکمانستان‘ افغانستان‘ پاکستان اور بھارت کے درمیان پائپ لائن ہوگی۔ یہ پائپ لائن منصوبے کے مطابق امریکا کے زیر اثر ترکمانستان سے نکل کر مغربی افغانستان میں ہرات سے ہوتی ہوئی اور ایک حصہ قندھار سے لیتی ہوئے قندھار سے گزرے گی۔ جانے یہ منصوبہ کب پایہ تکمیل تک پہنچے گا۔ سردست اس کا کوئی علم نہیں۔ اس وقت تو صورتحال کچھ یہ ہے کہ اس پائپ لائن سے تیل اور گیس کی بجائے مسلمانوں کا خون بڑی بھاری مقدار میں بہہ رہا ہے۔ اسی بناءپر واقفان حال اس پائپ لائن کو خون کی پائپ لائن کے نام سے پکارنے لگے ہیں۔ واشنگٹن کی تازہ ترین سوچ یہ ہے کہ وہ کابل میں متحارب مجاہدین قوتوں کو منظر سے ہٹا کر طالبان کو لانا چاہتا تھا تاکہ وہ ان کی مدد سے پائپلستان کے منصوبے کو عملی جامعہ پہنا سکے۔ لیکن طالبان نے پائپلستان کی مجوزہ کھدائی سے انکار کردیا اور اب ان کی اس گستاخی کا حشر ہم سب کے سامنے ہے۔ امریکا کی یہ مخصوص ادا ہے کہ ایسے افراد جو اس کے چشم ابرو کے اشارے پر رقص کرنے سے اپنی معذوری ظاہر کریں انہیں وہ عبرت کا نشانہ بناکر دم لیتا ہے۔ امریکا اب یہ چاہتا ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل کاکام پاکستان کے سپرد کردیا جائے اور اس کے تعاون سے پائپلستان کی کھدائی کا اہتمام کرنا چاہتا ہے۔ فنی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پائپلستان کی کھدائی کے عمل میں موجود پاکستان کا نصف حصہ بھی متاثر ہوگا۔ ظاہر ہے کہ اگر عوام اور افواج کو اس منصوبے پر مامور کردیا گیا تو اس کے خوشگوار نتائج برآمد نہ ہوں گے۔ لہٰذا اس منصوبے کی حتمی منظوری دینے سے پہلے اس کے مختلف پہلوﺅں کا بغور جائزہ لینا بے حد ضروری ہے۔ ہم نے اپنی گفتگو کا آغاز ان عناصر کے حوالے سے کیا تھا جنہوں نے اپنے اپنے مخصوص مقاصد کے پیش نظر بلوچستان پر نظریں گاڑ رکھی ہیں مگر اس کا کیا علاج کہ ہماری بات خونی پائپ لائن پر جا ٹوٹی جس کی ان دنوں ہنگامی بنیادوں پر منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ اب ہم اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ امریکا‘ یورپی ممالک اور وسطی ایشیائی ممالک سب بلوچستان کے معاملات میں اتنی غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کیوں کررہے ہیں؟۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ بلوچستان کو جغرافیائی لحاظ سے وسط ایشیاءمیں ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روس نے افغانستان پر حملہ کرنے کے بعد بلوچستان کے ذریعے وسطی ایشیا سے تجارت اور دیگر اہم معاملات مین اس کی بالادستی کی صلاحیت شناخت کرلی تھی اور ساتھ ہی یہ بھی واضح حقیقت ہے کہ پاکستان‘ بلوچستان کے راستے پر ایران‘ عراق‘ چین‘ افغانستان اور ہندوستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کو فروغ دے کر بڑی طاقت بننے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوسکتا ہے۔ تجارت‘ ٹیکنالوجی‘ معاشیات اور صنعت کی پیداوار پر اس کی گرفت مضبوط ہوسکتی ہے علاوہ ازیں وسطی ایشیاءاور مشرق وسطیٰ کے ممالک کی گیس اور تیل کی دولت کو بھی سمندر کے راستے یورپی ممالک تک باآسانی پہنچا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو بلوچستان کے بارے میں امریکا اور روس کی خصوصی دلچسپی کا جواز دکھائی دینے لگتا ہے۔ امریکا کی بلوچستان سے دلچسپی کا سبب یہ ہے کہ وہ ایک طویل مدتی پروگرام کے تحت چاہتا ہے کہ بلوچستان کے خطہ سے یورپی تک ایک محفوط اور قابل اعتماد راہ ہموار کرے اور وہ اس راہ کی بدولت ایشیائی ممالک‘ خصوصی طور پر بلوچستان‘ خلیج اور ایران سے تیل اور گیس متعدد امریکی ممالک اور یورپ تک لے جاسکے گا۔ اس مقصد کے لیے بلوچستان بحر ہند اور وسطی ایشیا کیلئے مختصر ترین راہ فراہم کرسکتا ہے اور امریکا یہ سہولت میسر آنے کے بعد چین پر بھی نگاہ رکھ سکے گا۔ بلوچستان سے خلیجی ممالک کا فاصلہ بھی کوئی زیادہ نہیں۔ امریکی اکابرین کی سوچ کے مطابق جب حالات سازگار ہوں تو امریکا وسطی ایشیا سے گیس اور تیل گوادر وہاں سے پسنی تک لے جاسکے گا جہاں سے امریکا کے لیے اس تیل اور گیس کا متحدہ امریکی ممالک تک لے جانا آسان ہوگا۔ اور آخر میں بلوچستان سے تعلق کے بارے میں امریکی عزائم کی جھلک آپ نے دیکھی۔ امریکا اور دوسرے کئی ممالک بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کے در پے ہیں مگر ہم ان طاقتوں کو بروقت آگاہ کیے دیتے ہیں کہ اگر انہوں نے اپنی سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی تو انہیں جون کی تپتی دوپہر کو تارے دکھائی دینے لگیں گے۔ آزمائش شرط ہے۔!!

اغیار کی سازشوں کا شکار‘ صوبہ بلوچستان
کرنل غلام سرور 
بلوچستان یوں تو ایک عرصہ سے بحرانوں کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے۔ مگر حالیہ دنوں میں ان بحرانوں کی شدت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے اور حالات تیزی سے غیریقینی صورتحال اختیار کرتے جارہے ہیں اور عوام میں اب بے چینی کا یہ عالم ہے کہ ملک دشمن عناصر علیحدگی کی باتیں بھی کرتے سنائی دینے لگے ہیں۔ ان انتہا پسند عناصر کے بقول بلوچستان کی علیحدگی کا مسئلہ اب نوشتہ دیوار ہے اور اب اسے زیادہ دیر تک روکا نہیں جاسکتا۔ یہ سوچ غیرملکی طاقتوں کے اشارے پر کام کرنے والوں کی جانب سے پھیلائی جارہی ہے۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے وہ مسائل کی سنگینی سے خوفزدہ ہیں مگر ان کی حب الوطنی ہر قسم کے شکوک و شبہات سے بالاتر ہے۔ ان کی حب الوطنی کسی اور پاکستانی شہری سے کچھ کم نہیں۔ یہ عناصر حکومت کی پالیسیوں پر نالاں ضرور ہیں۔ مگر وہ ملک سے علیحدہ ہونے کے بجائے‘ اپنے حقوق کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ اس تناظر میں حکمت اور دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ ارباب اختیار ماضی کی غلطیاں دہرانے کے بجائے عوام کے حقوق کا تحفظ کریں اور اُلجھے ہوئے مسائل کا حل تلاش کریں۔ بلوچستان کے عوام کو جن مشکلات کا سامنا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں اس صوبے میں تعمیر و ترقی کا کام نہ ہونے کے برابر ہوا ہے۔ مقامی سرداروں نے عوام کے حقوق پر جس طرح ڈاکہ ڈالا ہے اس کے نتیجے میں یہ محرومی دیکھنے میں آرہی ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ موجودہ حکومت‘ مسائل کی شدت کا احساس رکھتی ہے اور وہ اصلاح کی احوال کی تدابیر بھی اختیار کرنے میں مخلص دکھائی دے رہی ہے۔ حال ہی میں پیپلزپارٹی کے رہنما میاں رضا ربانی نے بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے پندرہ نکاتی سفارشات سینیٹ میں پیش کی ہیں۔ ان سفارشات میں کہا گیا ہے کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کا مسئلہ کو ترجیح بنیادوں پر حل کیا جائے ساتھ ہی بلوچستان رہنماوں کے قتل کی اعلیٰ سطح پر تحقیق کی جائے اور پہاڑوں میں چھپے ہوئے افراد سمیت تمام سیاسی رہنماوں سے مذاکرات کیے جائیں۔ بلوچستان میں رائلٹی کے لیے یکساں فارمولا طے کیا جائے اور صوبے سے تمام فورسز کو واپس بلایا جائے اور این ایف سی ایوارڈ‘ آبادی کی بجائے اراضی اور محصولات کی بنیاد پر دیا جائے۔ ان مطالبات کی روشنی میں یہاں ہم عرض کرتے ہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ ایک عرصہ سے حل طلب چلا آرہا ہے اور وقت کے ساتھ اس کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ درج بالا سفارشات کافی جامع ہیں اور ان سفارشات پر اگر صدق دل سے عمل کیا جائے تو بلوچستان کے عوام کی بے چینی کافی حد تک ختم کی جاسکتی ہے۔ ہم اوپر عرض کرچکے ہیں کہ بلوچستان کے عوام کو گمراہ کرنے اور انہیں علیحدگی پر آمادہ کرنے میں بیرونی عناصر کا ہاتھ ہے۔ وزیر داخلہ‘ رحمن ملک نے بڑے واشگاف لفظوں میں بھارت اور روس کو اس صورتحال کا ذمہ دار ٹہرایا ہے۔ ان کے بقول یہ دونوں ممالک بلوچستان میں امن قائم نہیں ہونے دیتے اور وہ باغی عناصر کو اسلحہ اور سرمایہ فراہم کررہے ہیں۔ ماضی میں بلوچستان کے حالات بگاڑنے میں غیرملکی ہاتھ ملوث ہونے کے بارے میں مختلف حکومتیں مختلف بیان دیتی رہی ہیں لیکن رحمن ملک نے سینیٹ میں سرعام یہ بیان دے کر بلوچستان کی اصل صورتحال‘ اہل وطن پر واضح کردی ہے۔ یہ ایک بدیہہ حقیقت ہے کہ بلوچستان پاکستان کا ایک انتہائی اہم صوبہ ہے اور اس کی اسٹرٹیجک لوکیشن (Strategic Location) اور اس کے وسائل پر ملک دشمن طاقتوں کی حریصانہ نگاہیں گڑی ہوئی ہیں۔ سرد جنگ کے زمانے میں سوویت یونین (حال روس) کی دلی خواہش تھی کہ وہ بلوچستان کی وساطت سے گرم پانی تک رسائی حاصل کرسکے اور اسی خواب کی تعبیر میںاس نے 1978 ءمیں اپنی فوج افغانستان میں اتاری تھی۔ سوویت یونین کی ریشہ دوانیوں اور بائیں بازوسے تعلق رکھنے والے عناصر کی سازشوں کے نتیجے میں ”پختونستان“ اور ”گریٹر بلوچستان“ کے نعرے سنائی دیتے تھے۔ سرحد اور بلوچستان میں قائم صوبائی حکومتیں‘ بائیں بازو کے نظریات سے کافی حد تک ہم آہنگ تھیں۔ اس لیے ”گریٹر بلوچستان“ کے نعروں کو کافی مقبولیت مل گئی تھی۔ بعد میں جب بلوچستان میں نیپ کی حکومت ختم کی گئی تو پھر وہاں فوجی آپریشن شروع کیا گیا۔ بلوچستان قوم پرست جماعتوں نے اس فوجی آپریشن کی بھرپور مزاحمت کی۔ اس مزاحمت میں انہیں افغان حکومت اور بالواسطہ سوویت یونین کی حمایت حاصل تھی۔ اس دوران نیپ کے بعض سرکردہ رہنما کابل چلے گئے اور وہاں سے بلوچستان میں مزاحمتی تحریک کی قیادت کی۔ معروف تجزیہ نگار‘ جاوید صدیق لکھتے ہیں کہ بلوچستان کے عوام بالخصوص قوم پرست جماعتوں کا ہمیشہ یہ شکوہ رہا ہے کہ اسلام آباد ان کے حقوق غصب کررہا ہے اور اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ آئین کے تحت عوام سے جس خودمختاری کا وعدہ کیا گیا تھا وہ ابھی تک پورا نہیں ہوا۔ اس کے برعکس ایوب خان‘ بھٹو اور پرویز مشرف کے ادوار کے فوجی آپریشنوں نے بلوچستان کے عوام کو پاکستان سے دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ انداز نے تو جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ بلوچستان کے عوام کی برہمی کی اصل وجہ یہی آمرانہ نظام ہی رہا ہے۔ اس نظام نے عوام کی آواز کو ہمیشہ دبانے کی کوشش کی ہے اور اس کا نتیجہ آج ہم سب کے سامنے ہے۔ بلوچستان کا معاملہ آئے دن بگڑتا جارہا ہے اور آج کے تناظر میں بلوچستان میں جو سازش ہورہی ہے اس کا مرکزی کردار بھارت دکھائی دیتا ہے اور اسے روسی حمایت بھی حاصل ہے۔ ان سازشوں کو پھلنے پھولنے کا موقع اس بنا پر مل رہا ہے کہ صدیوں سے بلوچ عوام محرومی کا شکار چلے آرہے ہیں اور وہ سرداری نظام کے چنگل میں پوری طرح جکڑے ہوئے ہیں اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے بلوچستان کے عوام کو سرداری نظام سے نجات حاصل کرناہوگی۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس تاثر کو بھی تقویت مل رہی ہے کہ بلوچستان میں بھارت اور روس کی مداخلت کے ساتھ ساتھ امریکا نے بھی حالات خراب کرنے میں اپنا کردار ادا کیا اس نے اپنی شاطرانہ چالوں سے سرحد اور بلوچستان سے دونوں صوبوں کو آگ میں دھکیل دیا ہے اور اس تناظر میں اگر بلوچستان میں بغاوت کے جذبات پیدا ہورہے ہیں تو اس کی ذمہ داری بھی بیرونی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کے ساتھ ساتھ اداروں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ جنہوں نے انسانی حقوق کی پامالی کی تمام حدوں کو پامال کردیا ہے۔

بلوچستان ماضی‘ حال اور مستقبل
ڈاکٹرممتاز عمر 
پاکستان کی بقاءاور سا لمیت کے لیے جو مسئلہ بڑی اہمیت رکھتاہے وہ یہ ہے کہ یہ ملک جن عناصر پر مشتمل ہے انہیں کس طرح متحد رکھ کر ایک وحدت کی حیثیت برقرار رکھی جائے کیونکہ یہ عناصر مختلف وجوہات کی بناءپر بڑی شدت کے ساتھ انتشار کا شکار ہیں۔ اگر یہ عناصر مربوط نہ رہ سکے تو استحکام اور ملکی سا لمیت خطرے سے دوچار ہوسکتی ہے اور سقوط ڈھاکا کے بعد ایسی کوئی بھی صورت اسلامی نظریے اور نظریہ¿ پاکستان پر قائم ہونے والی اس مملکت خداداد کے بارے میں سوال اٹھاتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بنیادی اکائیاں انتشار کا شکار ہیں اور کچھ قوتیں ان کو بڑھانے میں لگی ہوئی ہیں۔ آخر یہ خلا کیوں کر پیدا ہوا؟ اور کس طرح وسیع ہورہا ہی؟ اس کی جو وجوہات سامنے آتی ہیں وہ جغرافیائی ‘ لسانی اور معاشی ہیں۔ کیا ہم ایک قوم ہیں یاچار مختلف قومیں ہیں جو مصنوعی طور پر ایک سیاسی وحدت میں منسلک ہوگئی ہیں۔ یعنی سندھی‘ بلوچی‘ پٹھان اور پنجابی جبکہ مہاجر اور سرائیکی بھی منرد تشخص کے خواہاں ہیں۔ اسی طرح معاشی طور پر بھی دو طبقات سامنے آئے ہیں۔ امیر اور غریب‘ زمیندار اور کاشتکار‘ مزدور اور سرمایہ دار‘ بڑی تنخواہیں پانے والے افسر اور چھوٹے اہلکار۔ یہ دو مختلف گروہ ہیں جن کو معاشی بے انصافیوں نے ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ ایک بے بس اور لاچار اور دوسرا بالادست اور بااختیار۔ پھر صوبائی خودمختاری اور مالیاتی تقسیم کا معاملہ ہے کہ جس نے فاصلوں کو مزید بڑھایا۔ بلوچستان جو رقبے اور قدرتی وسائل کی کثرت کے باوجود غربت کی پستی میں ہے تو سندھ زیادہ ٹیکس جمع کرنے کے باوجود مالیاتی معاملات میں کم حصہ ملنے کا شاکی ہے اور صوبہ سرحد پن بجلی کی رائلٹی کا مطالبہ کررہا ہے۔ یہ معاشی ناہمواری بے چینی کو ہوا دیتی ہے اور پھر بلوچستان کے عوام حکومت کے سامنے آکھڑے ہوتے ہیں۔ طاقت کے ذریعے سے ان کو دبا کر ریاست کی سیاسی وحدت اور اس کے امن کو برقرار رکھنا ایک حد تک ممکن ہے مگر یہ چیز دلوں کو جوڑ کر وہ قلبی وحدت تو ہرگز پیدا نہیں کرسکتی جو ریاست کی اندرونی ترقی اور بیرونی خطرات کے مقابلہ میں اس کی متحدہ مدافعت کے لیے ضروری ہے۔ بلوچستان ایک بار پھر اس مقام پر کھڑا ہے جہاں ایک چنگاری زبردست دھماکے کا باعث ہوسکتی ہے۔ قدرتی گیس کے وسائل سے مالا مال اس صوبے میں خانہ جنگی نے وہ شدت اختیار کرلی ہے کہ تجارتی اور گھریلو صارفین ہر دو اس سہولت سے محروم ہوسکتے ہیں۔ یہی نہیں حکومت گوادر کی بندرگاہ کے ذریعے بلوچستان کے عوام کو معاشی خوشحالی کی نوید سناتی ہے تو مقامی آبادی سراپا احتجاج ہے۔ بلوچستان کے قبائلی معاشرے کو سمجھنے کے لیے تاریخ کی ورق گردانی کرنی ہوگی‘ کیونکہ تقسیم برصغیر کے موقع پر کانگریس اور انگریزوں کی باہمی سازش کے نتیجے میں اس خطے کو ایک آزاد ریاست اور ہندوستان کا حلیف بنانا تھا مگر محمد خان جوگیزئی اور میر جعفر خان جمالی جیسے جہاندیدہ قبائلی سرداروں کی حب الوطنی اور بروقت کارروائی نے اس خواب کو بکھیر کر رکھ دیا جب 3 جون 1947ءکے اعلان آزادی پر اے اے جی نے شاہی جرگے اور کوئٹہ میونسپل کارپوریشن کے ارکان سے رائے چاہی تو معاملے کو ٹالنے کے بجائے اسی وقت فیصلہ کردیا گیا۔ رہی ریاست قلات تو قائداعظم کی فراست نے اسے بھی پاکستان کا حصہ بنالیا‘ مگر افسوس بلوچ عوام اورقبائلی سردار اپنی تمام تر نیک نیتی اور حب الوطنی کے باوجود شک کی نگاہ سے دیکھے گئے۔ آج ایک بار پھر بلوچستان آگ اور خون کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ نادیدہ قوتیں بلوچ قوم پرستوں کو تختہ مشق بنا کر بلوچ عوام کو مشتعل کررہی ہیں۔ سابقہ دور حکومت میں جب چوہدری شجاعت حسین‘ مشاہد حسین سید اور وسیم سجاد نے مذاکرات کے ذریعے نواب اکبر بگٹی کو منانے کی کوشش کی اور تجاویز حتمی شکل پاچکیں تو مذاکرات ٹال دیے گئے اور پھر طاقت اور قوت کا بے جا استعمال کرکے اس بزرگ سیاستدان کو قتل کردیا گیا۔ بلوچستان سراپا احتجاج بنا رہا‘ پھر 18 فروری 2008 ءکے انتخابات کے بعد امید کا دیا جلا۔ برسراقتدار آنے کے بعد پیپلزپارٹی کی قیادت نے ماضی کے عمل پر معافی چاہتے ہوئے بلوچستان کی ترقی کے وعدے کیے خیرسگالی کے اظہار میں گرفتار بلوچ رہنماوں کو رہا کیا گیا‘ مذاکرات کی میز سجائی گئی۔ حالات کچھ بہتری کی طرف آنا شروع ہوئے اور پھر صدرمملکت کے دورہ¿ کوئٹہ کے دوران بڑے وعدے اور دعوے سامنے آئے۔ ابھی امن کی فاختہ فضاوں میں موجود تھی بلوچستان کے عوام خوش کن مستقبل کے خواب کے طلسم میں گرفتار تھے ابھی صدرمملکت کے دعوے اور وعدے کی گونج محسوس کی جارہی تھی‘ بلوچ اپنے زخموں کے کھرنڈ نظرانداز کرکے خوش گماں تھے‘ ابھی بلوچوں کا متشدد گروہ اقوام متحدہ کی یقین د ہانی پر ان کے مغوی کو رہا کرنے پر آمادہ ہوا تھا‘ ابھی مغوی اپنے گھر بھی نہ پہنچا تھا کہ اچانک سب کچھ بدل گیا۔ بلوچ انگشت بدنداں رہ گئے دوستی اور اعتبار و اعتماد کے بدلے انہیں ان کے پیاروں کی نعیش دے دی گئیں نعیش بھی ایسی جو مسخ کردی گئی تھیں۔ بلوچستان کوئی مشرقی پاکستان تو نہیں جسے ایک بوجھ سمجھ کر کاٹنے کی سازش کی گئی۔ یہ تو آپ کا سرمایہ ہے صنعتی ترقی کی کلید یہیں ہے۔ یہاں موجود وسائل کا اندازہ بھی نہیں کیا جاسکا۔ گیس‘ تیل‘ کوئلہ‘ تانبا‘ سونا اور فولاد کے وہ ذخائر جو ملکی ترقی اور بلوچستان کی خوشحالی کے ضامن ہیں۔ یہی نہیں گوادر کی بندرگاہ جس کے ثمرات بلوچوں کی جھولی میں آیا ہی چاہتے ہیں کہ اس کی بدولت وسط ایشیا تک کی تجارت کی راہیں کشادہ ہوں گی۔ مگر یہ سب خواب اس وقت بکھر کر رہ جاتے ہیں جب نادیدہ قوتیں اور ملک دشمن طاقتیں یکجا ہوکر بلوچستان میں لگی آگ کو بھڑکانے کی کوشش کرتی ہیں۔ ہمارے ارباب اختیار و اقتدار حالات حاضرہ سے چشم پوشی کررہے ہیں یہ وقت زخموں پر مرہم رکھنے کا ہے۔ بلوچستان کو امداد نہیں ان کا حق دیجئے انہیں مسائل نہیں وسائل میں حصہ دیجئے‘ محض زبانی دعووں اوروعدوں کے بجائے عملی اقدامات کیجئے پراسرار طور پر غائب لوگوں کو منظر عام پر لایئے‘ سیاسی قوتیں مذاکرات کا آغاز کریں‘ ناراض عوام کو منانے کے لیے رعایتیں دیجئے ‘ ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کے بجائے وسیع القلبی کا ثبوت دیجئے۔ محبت‘ ایثار‘ ہمدردی اور حب الوطنی کو مقدم جانتے ہوئے آج بھی بلوچستان کو بچانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ دیکھیں ارباب حل و عقد کیا کرتے ہیں؟ انہیں یہ ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ بلوچستان کے عوام کی اکثریت محب وطن ہے۔ وہ پاکستان سے نہیں پاکستان کے حکمرانوں سے ناراض ہے۔ ا