Sunday, August 23, 2009

بیرونی اور اندرونی قوتوں کا تختہ مشق بلوچستان (2) 
ثمرہ جمیل مرزا 
پاکستان پیپلز پارٹی کا اب تک کا جو موقف سامنے آیا ہے اس کے مطابق وہ سپریم کورٹ کے 3نومبر2007ءکے غیر آئینی اقدامات کی عدالتی کارروائی اور فیصلوں کے سلسلہ میں غیر جانبدار رہنے کا ہے ۔ جبکہ سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے خلاف غیرآئینی اقدامات، 12 اکتوبر 1999ءاور 3نومبر2007ءکے مارشل لاﺅں کے سلسلہ میں آئین کی دفعہ 6کے تحت سنگین غداری کی عدالتی چارہ جوئی کا اصولی اور آئینی فیصلہ پارلیمان پر چھوڑ دیا ہے۔ جو موجودہ حکمرانوں پر عوام کا وہ قرض ہے جسے چکائے بغیر کوئی چارہ کار نہیں۔ حکمران قیادت کے لیے مناسب اور اصولی فیصلے کرنے کی راہ میں بہت سی مشکلات حائل ہوسکتی ہیں۔ لیکن مشکل فیصلے ہی بد اقتصادی کی دیواریں گرانے کے لیے وقت کی اہم ضرورت ہوتے ہیں۔ اعتماد اور تعلق قائم رکھنے کے لیے مشکلات کا کڑوا گھونٹ پینا ہی پڑے گا۔ تصویر کا ایک دوسرا رخ اس سے بدرجہا افسوسناک ہے۔ صوبائی دارالخلافہ کوئٹہ کے علاوہ دوسرے بڑے شہروں میں کالجوں اور اسکولوں کے بیگناہ پرنسپل اور پروفیسروں کو ٹارگٹ کلنگ سے شہید کیا جارہا ہے ۔ یہ اس سلسلہ کی تازہ ترین وارداتیں ہیں جن کے تحت انتقام میں اندھے بلوچ دہشت گرد، عظیم پاکستانی بلوچستان کی حمایت کرنے والے ماہرین تعلیم کو نہایت بیدردی سے قتل کررہے ہیں جنہوں نے اپنے خون جگر سے اس بے وسیلہ خطہ میں تعلیم سے بے بہرہ لوگوں کے تاریک آنگنوں میں علم کی شمعیں روشن کیں۔ کراچی اور اندرون ملک سے آنے والی ریلوے ٹرینوں میں بم دھماکے کرکے بیگناہ مسافروں کو ہلاک کیا ہے۔ ریلوے ٹریک، ریلوے پل بم دھماکوں سے اڑائے گئے ہیں۔ پولیس اور نیم فوجی اہلکاروں کو اغوا اور یرغمال بنا کر اپنے مطالبات منظور نہ ہونے پر بتدریج ہلاک کیا جارہا ہے۔ قدرتی گیس سپلائی لائنوں اور الیکٹرک پولوں کو بم دھماکوں سے اڑا کر ان بنیادی ضروریات زندگی کی ترسیل میں بے قاعدگی پیدا کی گئی ہے۔ اب سے کچھ عرصہ پیشتر حکومت پاکستان نے امریکا کو ان دہشت گرد کارروائیوں کے ٹھوس ثبوت پیش کیے تھے کہ کس طرح بھارتی خفیہ ادارے افغانستان کے صوبہ ہلمند اور قندھار سے بلوچستان کو مقامی شدت پسندوں کے تعاون سے نشانہ بنانے میں مصروف ہیں۔ دہشت گردی کی ان کارروائیوں میں شہید نواب محمد اکبر بگٹی کے ایک پوتے کی جانب سے مرکزی کردار ادا کرنے کی بھی باضابطہ تصدیق ہوچکی ہے۔ کم از کم آٹھ غیر ملکی خفیہ ایجنسیاں دہشت گردی کی ان سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ اور مقامی گمراہ شدت پسندوں کی حوصلہ افزائی اور معاونت کررہی ہیں۔ اہم تنصیبات پر راکٹ فائر کرنے کے واقعات تو جنوری 2005ءسے ریکارڈ پر ہیں اور اس بات کے ناقابل تردید ثبوت مل چکے ہیں کہ شہید نواب صاحب کے براہ راست روابط بھارتی اور حامد کرزئی کے تخریب کاروں سے رہے ہیں۔ ان کے ہونہار پوتے جناب یرہمداغ بگٹی کی بھارت کے خفیہ ادارے کے حکام کے ساتھ کابل اور نئی دہلی میں ملاقاتوں کی تصاویر بھی موجود ہیں اور اس بات کے ثبوت بھی حاصل ہوئے ہیں کہ بلوچستان کے قبائلی سرداروں کو جنوب مغربی پاکستان سے الگ ہو کر خلیج کے شیوخ کی پرآسائش زندگی گزارنے کے پُرفریب سنہرے خواب دکھائے گئے ہیں۔ نواب اسلم رئیسانی کی صوبائی حکومت تو ان تخریب کاروں کی دہشت گرد کارروائیوں کی مذمت سے تاحال گریزاں ہے لیکن گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی کا واضح موقف سامنے آیا ہے کہ بلوچستان اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں اور علیحدگی پسندوں سے کسی گفت و شنید کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یاد رہے کہ نواب ذوالفقار علی مگسی اپنے قبیلے کے سربراہ ہیں یہ قبیلہ ضلع جھل مگسی میں آباد ہے جہاں کی آبادی تقریباً ڈیڑھ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے لیکن اس سے ملحق سندھ کے ضلع شہداد کوٹ کے وسیع علاقہ میں تقریباً چھ لاکھ مگسی قبائل آباد ہیں اس لحاظ سے نواب ذوالفقار مگسی کا اثر و رسوخ بلوچستان کے ساتھ ساتھ صوبہ سندھ میں بھی موجود ہے۔ آپ کے ایک بھائی میر قادر علی مگسی سندھ صوبائی حکومت میں وزیر خوراک و زراعت ہیں خود نواب ذوالفقار مگسی دوبار صوبائی وزیر تعلیم اور وزیر داخلہ کے علاوہ دوبار بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔ ان کی سیاسی رائے کا وزن تسلیم کرنا ضروری ہوگا۔ ایک صاحب طرز تجزیہ نگار محمود علی شاہ بلوچستان کی تاریخ اور مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ذاتی مشاہدات اور تجربات پر مبنی ان کی ایک قابل مطالعہ کتاب شائع ہوئی ہی، جس کی تعریف جناب محمد جاوید اعوان نے اس کتاب کے دیپاچہ میں تحریر کی ہے۔ اور اہل بلوچستان کے عمومی رویوں کا نہایت زود فہم تجزیہ پیش کیا ہے۔ بلوچستان کے وسیع و عریض صوبے کے اندر کئی خصوصی خطے ہیں جہاں زندگی مختلف سطحوں پر سانس لیتی ہے۔ ہر خطے کی سماجی معاشرتی اور معاشی اقدار میں محسوس حد تک فرق پایا جاتا ہے۔جس کی واضح بنیاد تعلیمی اور معاشی مواقع کی ناہمواری اور ذرائع مواصلات کی شدید کمیابی ہے۔ دشوار گزاری نے روابط کو ایک مخصوص خطے تک محدود کرتے ہوئے مقامیت کو پیدا کیا ہے جن علاقوں تک نا رسائی زیادہ ہے وہاں مقامیت کی عصیبت بھی زیادہ اور غربت و محکومی کی گرفت بھی سخت ہے ۔ جہاں تک آمدورفت کی نسبتاً کسی قدر آسانی اور روابط میں آسانیاں ہیں وہاں سماجی رویوں میں کشادگی اور فراخدلی کا عنصر پایا جاتا ہے۔ بلوچ شخصیت مردانہ وار جیسے کا نام ہے جس میں ذاتی وقار، قبائلی عصبیت اور انتقام کے لیے سب کچھ قربان کیا جاسکتا ہے۔ اس طرز معاشرت کے بعض پہلو جہاں نہایت قابل قدر ہیں وہیں ان کی مبالغہ آمیز اشکال سخت ترین مصائب پیدا کرتی اور زندگی کو حاصل آسانیوں سے محروم کردیتی ہیں۔ قناعت اور انا بلوچوں کی سب سے اہم طاقت اور دولت ہے۔ ان کی انا اسی استغناءسے پھوٹتی ہے جو ماحول کا سیاسی و سماجی جبر ان پر مسلط کرتا اور ان کی انانیت کو پروان چڑھاتا ہے۔ اختلاف وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں انانیت کی اخلاقی اساس ختم ہوجانے کے باوجود اس پر اصرار قائم ہی نہیںبڑھتا بھی رہتا ہے جسے دور کرنے کے لیے ان رویوں اور مسائل کا برادرانہ دہانت سے ادراک اور انہیں حل کرنے کے لیے مساویانہ جہد عمل نہایت لازمی ہے۔ ملک کے تمام دوسرے حصوں میں جاری ترقیاتی منصوبوں کے تناظر میں اہل بلوچستان کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ وہ خود اپنے مفاد میں سوچیں کہ مقامی قومیتوں کی باہم بدگمانیوں کی شدت، اہل علم و فن کا ناجائز اخراج، محنت طلب صنعتوں میں کاموں سے اغماض، تعلیم میں سست کوشی، مصنوعی سیاسی قیادت کی نفرت پر استوار تنظیموں پر انحصار، جدید دور کی فنی تعلیم کا فقدان ،منفی قدامت پسندی پر اعتماد، یہ سب عوامل اس کی ترقی کے سفر کو کھوٹا تو نہیں کررہے۔ محض اجالوں کی تمنا سے تاریکیاں دور نہیں ہوں گی۔ مساویانہ حقوق کے حصول کے لیے مسابقت کی دوڑ میں علم و ہنر کی بنیاد پر مساوی جدوجہد کرنا ہوگی۔ شاید کہ کسی دل میں اتر جائے میری بات، اللہ کریم میرے ملک کے اس مضبوط بازو کو سلامت رکھے۔(آمین)

No comments:

Post a Comment