Sunday, August 23, 2009

بلوچستان کے مسائل (1)
متفرق 
رقبے کے اعتبارسے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کے عوام اس وقت کئی طرح کے مسائل کا شکار ہیں ایک جانب ان کی صدیوں پر محیط ‘ پسماندگی‘ بھوک‘ افلاس‘ غربت‘جہالت اوراکیسویں صدی میں جدید تعلیم سے محرومی اور بے بسی ہے حتیٰ کہ بلوچستان کے بے شمار ایسے علاقے ہیں جہاں پینے کا صاف پانی تو دورکی بات ہے باسی پانی بھی میسرنہیں ‘سڑکوں کی نوعیت اس طرح کی ہے کہ کئی کئی سومیل کا فاصلہ طے کرلیاجائے مگر سوائے کچی پگ ڈنڈیوں کے جو جانوروں اور گاڑیوں پرچلنے کے نتیجے میں بنتی ہیں کچھ بھی موجود نہیں ہے ۔وہ فاصلہ جوعموماً ایک گھنٹے یا چند گھنٹوں میں طے ہوتاہے محض اس کو طے کرنے کے لیے 6‘6یا 8‘8 گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ جتنی دیرمیں لاہورسے اسلام آباد پہنچتے ہیں اتنی دیرمیں صرف سومیل کا فاصلہ طے کیاجاتاہے۔ اس عالم میں اگرکوئی بیمارہوجائے یا حادثہ ہوجائے تومریض کو قریبی ہسپتال لانے کے دوران ہی اس کا امکان رہتاہے کہ وہ مریض اپنی جاں سے ہاتھ دھوبیٹھے‘ دوسری جانب بلوچستان کے عوام کا سب سے بڑا مسئلہ اس غربت‘ پسماندگی‘ بھوک ‘افلاس‘ غربت‘ جہالت اوراکیسویں صدی میں جدید تعلیم اورمیڈیکل کی سہولتوں سے محرومی کے باوجود ان کے وہ سردار جو سال کے زیادہ ترحصے میں ملک سے باہر یا اپنے علاقے سے باہر رہتے ہیں کوئٹہ‘ کراچی‘ یا لاہوریا اسلام آباد کے پوش علاقوں میں اپنے محلوں یا فائیو اسٹارہوٹلوں میں بیٹھ کر ان پسماندہ بلوچ عوام کے نام پر ترجمانی کے فرائض کو انجام دینا افسوسناک اورمضحکہ خیزہے۔ بلوچ عوام کے یہ ترجمان جن کے بچے پاکستان میں اور پاکستان سے باہر یورپی ممالک میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اگرچہ بلوچوں کے مسائل کا بہت ہی تذکرہ کرتے ہیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے ان سرداروں کی جانب سے خودکبھی کبھی غریب بلوچ عوام کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش نہیںکی گئی ہے جیساکہ خود ڈیرہ بگٹی ہی کی مثال لے لی جائے۔ اگرچہ ڈیرہ بگٹی میںگیس کی موجودگی کی وجہ سے ماضی میں رائلٹی کی مد میں ہرسال حکومت کی جانب سے اورحکومتی اداروں کی جانب سے ہر سال اربوں روپوں کی رقم خاموشی کے ساتھ دے دی جاتی تھی مگر اس کے بارے میں بگٹی عوام کو کبھی بھی یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ وہ رقم کتنی ہے اور کس کے پاس جاتی تھی؟ اور اس کا کیا استعمال ہوتاتھا؟ یہ کسی کو بھی نہیں معلوم تھا اور اب بھی معلوم نہیں ہے۔ بگٹی قبیلہ جو چھ مرکزی شاخوں ‘راہیجہ‘ کلپٹر‘مسوری‘ نوتھانی‘ شمببانی‘ پیروزانی پرمشتمل ہے اس کی اہم ترین شاخ مسوری قبیلے کے مرکزبیکڑکی کیفیت اس طرح کی ہے کہ اب تک ڈیرہ بگٹی سے یاکسی بھی بڑے شہرسے بیکڑجانے کے لیے کسی بھی طرح کی کوئی سڑک سرے سے موجود ہی نہیں ہے اگرچہ کہ اب ہم اکیسویں صدی میں داخل ہوکر اب پہلے عشرے کے خاتمے کی جانب گامزن ہیں مگربیکڑشہرسے کسی مریض یا کسی خاتون کو ڈلیوری یا کسی بھی وجہ سے ڈاکٹر یا ہسپتال لے جانے کی کوشش کریں تو ڈیرہ بگٹی کے قریبی علاقے بلوچستان کے ضلع بارکھان کے شہر رکھنی تک جوبیکڑسے محض 90 میل کے فاصلے پرہے انتہائی تیزرفتاری کے ساتھ جانے کی صورت میں 6 سے 8 گھنٹے لگ جاتے ہیں یہ اس لیے ہے کہ محض نوے میل کے اس فاصلے میں کسی بھی طرح کی کوئی سڑک کبھی تعمیر ہی نہیں کی گئی جس کے نتیجے میں بیکڑبلوچستان کے اہم ترین علاقے میں واقع ہونے کے باوجود انتہائی پسماندہ ترین علاقہ شمارکیاجاتاہے بیکڑسے ڈاٹسن پک اپ پر جو کھلاٹرک ہوتاہے بیٹھ کر رکھنی جانے کے لیے ایک طرف کا کرایہ 300 روپے ہے جو عوام کے لیے انتہائی گراں ہے اس سے اس سفرکی طوالت اور سڑک کی حالت کا اندازہ کیاجاسکتاہے شاید اس پر آپ کوحیرت ہوکے کئی عشروں سے بگٹی قبیلے کے سردار اور ان کی جانشین کبھی بیکڑ اس لیے نہیں آئے کہ فوروھیل ایئرکنڈیشنڈ گاڑیوں کے باوجود ڈیرہ بگٹی سے بیکڑ تک کا سفران کے لیے باعث تکلیف ہوسکتاتھا۔ بگٹی قبیلے کی اہم ترین شاخ مسوری کے سربراہ علی محمدمسوری ہیں جوکہ بگٹی قبیلے میں مراتب کے اعتبارسے چیف آف بگٹی قبائل ہیں ان کا نمبربگٹی قبیلے کے سردارکے بعد دوسرے نمبرپرآتاہے یعنی بگٹی قبیلے کے سردارکے بعد چیف آف بگٹی قبائل ہیں چیف آف بگٹی قبائل علی محمدمسوری کی ذاتی کوششوں کے نتیجے میں بیکڑ میں گورنمنٹ کی جانب سے اسکول قائم کرلیے گئے تھے جہاں مسوری عوام کے بچوں نے بڑی تعداد میں مڈل اورہائی اسکول تک تعلیم حاصل کی اسی طرح چیف آف بگٹی قبائل علی محمدمسوری کی ذاتی کوششوں کے نتیجے میں اس کوشش میں بیکڑ کے اردگردبہنے والی دوپہاڑی ندیوں پرچھوٹے چھوٹے ڈیم تعمیرکردیے گئے تھے ان ڈیموں کے باعث بیکڑ اور اس کے گردونواح کے علاقے کے عوام ہزاروں سال سے اس بنجر اور بے آباد زمین کو آباد کرنے میں اس طرح سے کامیاب ہوگئے کہ یہاں کپاس کی سب سے بہترین فصل پیدا ہونے لگی بیکڑ کی کپاس اس وقت بہترین کپاس میں شمارکی جاتی ہے ۔دوسری جانب بہترین گندم بھی یہاں پیدا ہوتی ہے چیف آف بگٹی قبائل علی محمدمسوری کی ذاتی کوششوں کے نتیجے میں مسوری قبیلے کے عوام کے معیار زندگی میں اگرچہ تبدیلی بھی واقع ہوئی ہے مگر اس قدر بہترنہیں ہوئی جس قدر چیف آف بگٹی قبائل علی محمدمسوری چاہتے تھے کہ ہرمسوری گھرمیں خوشحالی آجائے۔ کیونکہ بگٹی قبیلے کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے چیف آف بگٹی قبائل سردار علی محمدمسوری کی ان کوششوں کو کبھی بھی اچھی نظروں سے نہیں دیکھا گیا شائد ان کی خواہش تھی کہ عوام خصوصاً بگٹی عوام ہمیشہ ان کے دست نگاہ رہیں وہ اپنے ہر ہرمسئلے کے حل کے لیے ان ہی کی جانب دیکھیں ان کی بارگاہ کا رخ کریں ان کو یہ بات پسند نہیں تھی کہ بگٹی عوام اپنی مدد آپ کے تحت جدوجہد کرکے کسی بھی طرح سے ترقی حاصل کرلیں اسی لیے جب مسوری عوام کے شعورمیں بلندی ہونے لگی اور ان میں خوشحالی ہونے لگی تو اس اعلیٰ قیادت نے پہلے تو مسوری قبیلے کو پیغام بھیجا کہ وہ پاکستان کے خلاف کی جانے والی بغاوت میں حصہ لیں جب مسوری قبیلے کے عوام کی اکثریت نے ان کے اس فیصلے کو مستردکردیا تو خود مرحوم نواب اکبربگٹی کے حکم پر ان کی نجی فوج یا فراریوں نے مسوری بگٹی قبیلے کے اس مرکز پر باقاعدہ حملہ کیا ان کی پکی ہوئی فصلوں کو نذرآتش کردیا اسکولوں کو یہ کہہ کر تباہ وبرباد کیاگیا کہ بگٹی قوم تعلیم حاصل کرکے بزدل ہورہی ہے اوربیکڑ اور اس کے اردگردکے علاقے کو چھوڑکر بارکھان اورڈیرہ غازی خان صوبہ پنجاب میں پناہ لینے پرمجبورہوگئے ۔اس صورتحال کا بگٹی مسوری شاخ اور ایف سی کی جانب سے جب جواب دیا گیا تو یہ فراری فرارہونے پر مجبور ہوگئے ۔ ایف سی ہی کی مدد اور تعاون سے بیکڑچھوڑنے والے مسوری کئی برس کے بعد اپنے اپنے گھروں میں واپس آئے اور انہوں نے اپنے اپنے گھروں کو آبادکیا۔ اب یہ پہلی بارہواہے کہ بلوچستان اور قومی اسمبلی میں بگٹی عوام کے حقیقی نمائندے بگٹی قوم کی ترجمانی کے لیے موجود ہیں اس وقت صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی کے حوالے سے بگٹی عوام کے اصل مسائل کے لیے آواز بلند کی جارہی ہے اس حوالے سے میں یہ ضروری تصورکرتاہوں کہ یہ بھی تذکرہ کرتا چلوں چیف آف بگٹی قبائل سردارعلی محمدمسوری کی شدید ترین خواہش ہے کہ ڈیرہ بگٹی اوربلوچستان کے عوام تعلیم حاصل کرکے جہاں اپنے معاشی حالات بہتربنائیں وہیں ایک اچھے پاکستانی بن کے پاکستان کی ترقی میں اپنا کرداراداکریں۔ (جاری ہے )

No comments:

Post a Comment