Sunday, August 23, 2009

بلوچستان ماضی‘ حال اور مستقبل
ڈاکٹرممتاز عمر 
پاکستان کی بقاءاور سا لمیت کے لیے جو مسئلہ بڑی اہمیت رکھتاہے وہ یہ ہے کہ یہ ملک جن عناصر پر مشتمل ہے انہیں کس طرح متحد رکھ کر ایک وحدت کی حیثیت برقرار رکھی جائے کیونکہ یہ عناصر مختلف وجوہات کی بناءپر بڑی شدت کے ساتھ انتشار کا شکار ہیں۔ اگر یہ عناصر مربوط نہ رہ سکے تو استحکام اور ملکی سا لمیت خطرے سے دوچار ہوسکتی ہے اور سقوط ڈھاکا کے بعد ایسی کوئی بھی صورت اسلامی نظریے اور نظریہ¿ پاکستان پر قائم ہونے والی اس مملکت خداداد کے بارے میں سوال اٹھاتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بنیادی اکائیاں انتشار کا شکار ہیں اور کچھ قوتیں ان کو بڑھانے میں لگی ہوئی ہیں۔ آخر یہ خلا کیوں کر پیدا ہوا؟ اور کس طرح وسیع ہورہا ہی؟ اس کی جو وجوہات سامنے آتی ہیں وہ جغرافیائی ‘ لسانی اور معاشی ہیں۔ کیا ہم ایک قوم ہیں یاچار مختلف قومیں ہیں جو مصنوعی طور پر ایک سیاسی وحدت میں منسلک ہوگئی ہیں۔ یعنی سندھی‘ بلوچی‘ پٹھان اور پنجابی جبکہ مہاجر اور سرائیکی بھی منرد تشخص کے خواہاں ہیں۔ اسی طرح معاشی طور پر بھی دو طبقات سامنے آئے ہیں۔ امیر اور غریب‘ زمیندار اور کاشتکار‘ مزدور اور سرمایہ دار‘ بڑی تنخواہیں پانے والے افسر اور چھوٹے اہلکار۔ یہ دو مختلف گروہ ہیں جن کو معاشی بے انصافیوں نے ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ ایک بے بس اور لاچار اور دوسرا بالادست اور بااختیار۔ پھر صوبائی خودمختاری اور مالیاتی تقسیم کا معاملہ ہے کہ جس نے فاصلوں کو مزید بڑھایا۔ بلوچستان جو رقبے اور قدرتی وسائل کی کثرت کے باوجود غربت کی پستی میں ہے تو سندھ زیادہ ٹیکس جمع کرنے کے باوجود مالیاتی معاملات میں کم حصہ ملنے کا شاکی ہے اور صوبہ سرحد پن بجلی کی رائلٹی کا مطالبہ کررہا ہے۔ یہ معاشی ناہمواری بے چینی کو ہوا دیتی ہے اور پھر بلوچستان کے عوام حکومت کے سامنے آکھڑے ہوتے ہیں۔ طاقت کے ذریعے سے ان کو دبا کر ریاست کی سیاسی وحدت اور اس کے امن کو برقرار رکھنا ایک حد تک ممکن ہے مگر یہ چیز دلوں کو جوڑ کر وہ قلبی وحدت تو ہرگز پیدا نہیں کرسکتی جو ریاست کی اندرونی ترقی اور بیرونی خطرات کے مقابلہ میں اس کی متحدہ مدافعت کے لیے ضروری ہے۔ بلوچستان ایک بار پھر اس مقام پر کھڑا ہے جہاں ایک چنگاری زبردست دھماکے کا باعث ہوسکتی ہے۔ قدرتی گیس کے وسائل سے مالا مال اس صوبے میں خانہ جنگی نے وہ شدت اختیار کرلی ہے کہ تجارتی اور گھریلو صارفین ہر دو اس سہولت سے محروم ہوسکتے ہیں۔ یہی نہیں حکومت گوادر کی بندرگاہ کے ذریعے بلوچستان کے عوام کو معاشی خوشحالی کی نوید سناتی ہے تو مقامی آبادی سراپا احتجاج ہے۔ بلوچستان کے قبائلی معاشرے کو سمجھنے کے لیے تاریخ کی ورق گردانی کرنی ہوگی‘ کیونکہ تقسیم برصغیر کے موقع پر کانگریس اور انگریزوں کی باہمی سازش کے نتیجے میں اس خطے کو ایک آزاد ریاست اور ہندوستان کا حلیف بنانا تھا مگر محمد خان جوگیزئی اور میر جعفر خان جمالی جیسے جہاندیدہ قبائلی سرداروں کی حب الوطنی اور بروقت کارروائی نے اس خواب کو بکھیر کر رکھ دیا جب 3 جون 1947ءکے اعلان آزادی پر اے اے جی نے شاہی جرگے اور کوئٹہ میونسپل کارپوریشن کے ارکان سے رائے چاہی تو معاملے کو ٹالنے کے بجائے اسی وقت فیصلہ کردیا گیا۔ رہی ریاست قلات تو قائداعظم کی فراست نے اسے بھی پاکستان کا حصہ بنالیا‘ مگر افسوس بلوچ عوام اورقبائلی سردار اپنی تمام تر نیک نیتی اور حب الوطنی کے باوجود شک کی نگاہ سے دیکھے گئے۔ آج ایک بار پھر بلوچستان آگ اور خون کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ نادیدہ قوتیں بلوچ قوم پرستوں کو تختہ مشق بنا کر بلوچ عوام کو مشتعل کررہی ہیں۔ سابقہ دور حکومت میں جب چوہدری شجاعت حسین‘ مشاہد حسین سید اور وسیم سجاد نے مذاکرات کے ذریعے نواب اکبر بگٹی کو منانے کی کوشش کی اور تجاویز حتمی شکل پاچکیں تو مذاکرات ٹال دیے گئے اور پھر طاقت اور قوت کا بے جا استعمال کرکے اس بزرگ سیاستدان کو قتل کردیا گیا۔ بلوچستان سراپا احتجاج بنا رہا‘ پھر 18 فروری 2008 ءکے انتخابات کے بعد امید کا دیا جلا۔ برسراقتدار آنے کے بعد پیپلزپارٹی کی قیادت نے ماضی کے عمل پر معافی چاہتے ہوئے بلوچستان کی ترقی کے وعدے کیے خیرسگالی کے اظہار میں گرفتار بلوچ رہنماوں کو رہا کیا گیا‘ مذاکرات کی میز سجائی گئی۔ حالات کچھ بہتری کی طرف آنا شروع ہوئے اور پھر صدرمملکت کے دورہ¿ کوئٹہ کے دوران بڑے وعدے اور دعوے سامنے آئے۔ ابھی امن کی فاختہ فضاوں میں موجود تھی بلوچستان کے عوام خوش کن مستقبل کے خواب کے طلسم میں گرفتار تھے ابھی صدرمملکت کے دعوے اور وعدے کی گونج محسوس کی جارہی تھی‘ بلوچ اپنے زخموں کے کھرنڈ نظرانداز کرکے خوش گماں تھے‘ ابھی بلوچوں کا متشدد گروہ اقوام متحدہ کی یقین د ہانی پر ان کے مغوی کو رہا کرنے پر آمادہ ہوا تھا‘ ابھی مغوی اپنے گھر بھی نہ پہنچا تھا کہ اچانک سب کچھ بدل گیا۔ بلوچ انگشت بدنداں رہ گئے دوستی اور اعتبار و اعتماد کے بدلے انہیں ان کے پیاروں کی نعیش دے دی گئیں نعیش بھی ایسی جو مسخ کردی گئی تھیں۔ بلوچستان کوئی مشرقی پاکستان تو نہیں جسے ایک بوجھ سمجھ کر کاٹنے کی سازش کی گئی۔ یہ تو آپ کا سرمایہ ہے صنعتی ترقی کی کلید یہیں ہے۔ یہاں موجود وسائل کا اندازہ بھی نہیں کیا جاسکا۔ گیس‘ تیل‘ کوئلہ‘ تانبا‘ سونا اور فولاد کے وہ ذخائر جو ملکی ترقی اور بلوچستان کی خوشحالی کے ضامن ہیں۔ یہی نہیں گوادر کی بندرگاہ جس کے ثمرات بلوچوں کی جھولی میں آیا ہی چاہتے ہیں کہ اس کی بدولت وسط ایشیا تک کی تجارت کی راہیں کشادہ ہوں گی۔ مگر یہ سب خواب اس وقت بکھر کر رہ جاتے ہیں جب نادیدہ قوتیں اور ملک دشمن طاقتیں یکجا ہوکر بلوچستان میں لگی آگ کو بھڑکانے کی کوشش کرتی ہیں۔ ہمارے ارباب اختیار و اقتدار حالات حاضرہ سے چشم پوشی کررہے ہیں یہ وقت زخموں پر مرہم رکھنے کا ہے۔ بلوچستان کو امداد نہیں ان کا حق دیجئے انہیں مسائل نہیں وسائل میں حصہ دیجئے‘ محض زبانی دعووں اوروعدوں کے بجائے عملی اقدامات کیجئے پراسرار طور پر غائب لوگوں کو منظر عام پر لایئے‘ سیاسی قوتیں مذاکرات کا آغاز کریں‘ ناراض عوام کو منانے کے لیے رعایتیں دیجئے ‘ ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کے بجائے وسیع القلبی کا ثبوت دیجئے۔ محبت‘ ایثار‘ ہمدردی اور حب الوطنی کو مقدم جانتے ہوئے آج بھی بلوچستان کو بچانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ دیکھیں ارباب حل و عقد کیا کرتے ہیں؟ انہیں یہ ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ بلوچستان کے عوام کی اکثریت محب وطن ہے۔ وہ پاکستان سے نہیں پاکستان کے حکمرانوں سے ناراض ہے۔ ا

No comments:

Post a Comment