Sunday, August 23, 2009

بلوچستان کے مسائل (دوسرا اورآخری حصہ )
متفرق 
ان کی اس خواہش کا اظہار اس طرح سے ہوتاکہ ڈیرہ بگٹی کی تاریخ میں پہلی باربیکڑ سے بارکھان جانے والے راستے پرپختہ سڑک تعمیرکی جارہی ہے اس وقت چونکہ فنڈزکی کمی ہے اس لیے سردست یہ پروجیکٹ کئی فیزمیں مکمل ہوگا اس وقت پہلے مرحلے میں 14 کلومیٹرطویل سڑک تعمیرکی گئی ہے جس کا اہم ترین حصہ کئی میل طویل پہاڑکو کاٹنا تھا جس کے نتیجے میں تقریباً 25 میل لمبا راستہ کم ہوکر محض 14کلومیٹر رہ گیاہے چیف آف بگٹی قبائل علی محمدمسوری اورمیرا اور میرے ساتھیوںکا ارادہ ہے کہ آئندہ ہربرس اس سڑک کے مختلف مراحل کو مکمل کرتے ہوئے ضلع بارکھان تک لے جائیں گے جس کے نتیجے میں جہاں بیکڑکے عوام کے لیے بے شمار سہولتیں پیداہوں گی وہیں یقیناً ان کی زندگیوں میں ایک انقلاب بھی رونماہوگا یہاں اس سڑک کی تعمیر کے نتیجے میں جہاں اس علاقے کی زرعی پیداوار ملک کی اہم مارکیٹوں اورمنڈیوں میں پہنچ سکے گا اس کے نتیجے میں علاقے کے عوام کا معیار زندگی بہترہوگا یہاں ڈاکٹر بھی باآسانی آسکیں گے ٹیکنیشن اوردیگراہل ہنربھی آئیںگے روزگارکے نت نئے مواقع پیداہوں گے اور اس پروجیکٹ کا اہم ترین پہلویہ بھی ہے کہ اس سڑک سے صرف مسوری بگٹی ہی فائدہ نہیں اٹھائیں گے بلکہ اس علاقے میں بسنے والے تمام قبائل خواہ وہ کھیترانی ہوں یا مری ہوں سب ہی اس کا فائدہ اٹھائیں گے اس طرح ضلع ڈیرہ بگٹی کے محب وطن پاکستانی پاکستان کی ترقی میں اپناکردار بخوبی اداکرسکیں گے میں آپ کویقین دلاتاہوں کہ ضلع ڈیرہ بگٹی میں بسنے والے عوام پاکستان کے کسی بھی حصے میں بسنے والے عوام کی مانند محب وطن ہیں اور پاکستان کی تعمیروترقی میں اپناکردار اداکرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح بیکڑ صوبہ بلوچستان کا واحد علاقہ ہے جہاں چیف آف بگٹی قبائل سردار علی محمدمسوری نے حکومت کی معاونت اور امن وامان کو بہتر بنانے اورعوام کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے تھانے کے لیے مفت جگہ فراہم کی جہاں پر پولیس کا تھانہ اس وقت زیرتعمیرہے۔ علاقے کے عوام کی بہتر تعلیم کے لیے ہائی اسکول کی تعمیرکاسلسلہ بھی جاری ہے اسی طرح پہلی باراس خطے میں ایک پارک بھی زیرتعمیرہے جس کا افتتاح عنقریب ہوجائے گا جب کہ آئندہ برسوں میں بیکڑ میں ہسپتال خواتین کے لیے طبی مراکز اور دیگر اہم منصوبوں کو مکمل کیاجائے گا۔ یہاں یہ بھی ذکرکردیاجائے کہ یہ ایسے پروجیکٹ نہیں تھے جو پہلے نہیں کیے جاسکتے تھے اور نہ ہی ایسا تھا کہ ان کے لیے فنڈز فراہم نہیں کیے جارہے تھے اب سے قبل جب جنرل رحیم الدین صوبے کے گورنرتھے ان کے دورمیں بہت سے ترقیاتی کام انجام دیے گئے مگر اس کے بعد ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈز تو بہت رکھے گئے مگر ان کا کیا بنا یہ کچھ نہیں معلوم؟۔ بات دور نکل گئی بنیادی طورپر جو غلطی ہورہی ہے وہ یہ کہ صرف اور صرف یک طرفہ موقف کو سنا اور اسی کو پسند بھی کیاجارہاہے حالانکہ حقائق ان سے یکسر مختلف ہیں اس کی مثال میں ڈیرہ بگٹی ہے پیش کرتاہوں میں 24 جون 2007ءکے اس جرگے کا تذکرہ کرنا ضروری تصورکرتاہوں کہ 24 جون 2007ءکو ڈیرہ بگٹی شہرمیں جو ضلع ڈیرہ بگٹی کا مرکز ہے منعقدہونے والے اس جرگے میں جس میں بگٹی قبیلے کی تمام چھ شاخوں کے سرداروں وڈیروں اور سرٹکریوں نے یہ چیف آف بگٹی قبائل سردارعلی محمدمسوری کی زیرقیادت شرکت کی تھی اس جرگے کے تمام شرکاءکی حمایت سے چیف آف بگٹی قبائل سردارعلی محمدمسوری نے اعلان کیاتھا کہ اب بگٹی قبیلے میں سرداری نظام کاخاتمہ کردیا گیاہے اس فیصلے کی تمام بگٹی قبیلے کی جانب سے حمایت کی گئی۔ اس جرگہ کے بعد مری قبیلے کی حدودمیں نواب اکبربگٹی ایک حادثے یا واقعے کے نتیجے میں خالق حقیقی سے جاملے۔ جس کے بعد عملاً بگٹی قبیلہ میں کوئی سردارتھا ہی نہیں جس کی بہت سی وجوہات میں سے دومندرجہ ذیل ہیں۔ (1) قبیلے کے جرگے کے فیصلے کے تحت بگٹی قبیلے سے سرداری اورنوابی نظام کاخاتمہ ہوگیا۔ (2) نواب اکبربگٹی کے فوت ہوجانے کے بگٹی قبیلے سے سرداری اورنوابی نظام کاخاتمہ ہوگیا۔ اس طرح بگٹی قبیلے میں کسی طرح کاکوئی سرداری یا نوابی نظام اب موجود نہیں تھا یہ نظام اب بگٹی قبیلے کے قوانین اورروایات کے مطابق ہی جرگے کے متفقہ فیصلے کے بعد ہی قائم ہوسکتا تھا اور بگٹی قوم کی روایات اور قانون کے مطابق کسی بھی نئے سردارکے لیے ضروری ہے کہ سرداربنتے وقت تمام شاخوں کے سربراہ سرداروڈیرے ‘ اورسرٹکری موجود ہوتے ہیں جو پگ پہنانے کی روایتی رسم میں حصہ لے کر سردارکی سرداری کی تائیدکرتے ہیں مگر سوئی کے مقام پر کی جانے والی اس دستاربندی میں بگٹی قبیلے کے رواج کے بالکل برخلاف اقدامات کیے گئے پہلی بات تویہ ہے سرداربننے کے لیے ضروری تھا کہ پگ بندی کی رسم ڈیرہ بگٹی میں اداکی جاتی جو بگٹی قوم کا مرکزہے۔ راہیجہ شاخ جس سے نواب اکبربگٹی کا تعلق تھا اور میرعالی بھی اسی شاخ کا نمائندہ ہے نواب اکبربگٹی کے بیٹے مرحوم سلیم بگٹی کے بیٹے میرعالی بگٹی کو نواب بنانے کے لیے سوئی کے مقام پرجو رسم اداکی گئی اس موقع پربگٹی قوم کے اہم ترین فرد احمد ان بگٹی جوکہ ایم این اے ہیں اوربگٹی قبیلے کی راہیجہ شاخ سے ہی ان کا تعلق ہے جو سردارخیل ہیں موجود نہیں تھے اور خود نواب اکبربگٹی کے تینوں بیٹے طلال بگٹی(شاہ زین بگٹی کے والد) اورجمیل بگٹی اور شاہ زوربگٹی جوکہ میرعالی بگٹی کے چچا ہیں اس موقع پر موجود نہیں تھے جبکہ طلال بگٹی کا بیٹا شاہ زین بھی جو میرعالی کا کزن ہے وہ بھی موجود نہیں تھا اس طرح خود راہیجہ شاخ میں اس موقع پر اختلاف ہواہے جبکہ بگٹی قبیلے کی دیگرچارشاخوں مسوری بگٹی کے سربراہوں میں سے خود‘ یعنی علی محمدمسوری چیف آف بگٹی قبائل۔جلال خان کلپربگٹی سردارکلپربگٹی‘ زبیرخان سردار‘شمبانی بگٹی اورمندرانی بگٹی قبیلے کے سربراہ باروزخان مندرانی بگٹی کے سربراہ بھی اس تقریب میں سرے سے موجود ہی نہیں تھے اس صورتحال میں جبکہ بگٹی قبیلے کے جرگے کی مشترکہ قرارداد اورفیصلے کی تحریر ابھی خشک ہی نہیں ہوئی ہے یہ کس طرح سے ممکن ہے کہ بگٹی قبیلے کی روایات کے برخلاف کسی ایسے فردکو جس پرقبیلے کے افراد تو الگ بات ہیں اس کے خاندان کے افرادتک متفق نہیں ہیں سرداریانواب مقررکردیاجائے ایسا سردارکیا کام انجام دے گا؟ اور اس کے کیا نتائج برآمدہوں گی؟ ان کا تذکرہ غیرضروری ہے مگر یہاں پریہ عرض کرنا انتہائی ضروری تصورکرتاہوں کہ انتظامیہ کے ان ہی فیصلوں کی وجہ سے اب تک بلوچستان مسائل کا گڑھ بناہواہے حالانکہ اگر حکومت اور ذمہ دارادارے عوام کی رائے کے مطابق اور حقائق کی بنیاد پر فیصلے کریں تو شاید ان کو بہترصورتحال ملے اور ان کے وسائل پاکستان کی ترقی کے لیے صرف ہوں۔ قیام پاکستان کے وقت بلوچ عوام کی اکثریت نے تحریک پاکستان کا ساتھ اس لیے دیا تھا کہ ان کو یہ امید تھی کہ قائد اعظم کی زیرقیادت مسلم لیگ ان کو اس صدیوں پرانے سرداری نظام سے نجات دلادے گی تاریخ کو سامنے نہیں لایاجاتاہے خودبگٹی قبیلے کے اندربھی حقوق کے شعورکے لیے تحریک قیام پاکستان سے قبل اٹھی تھی جو نواب اکبربگٹی کے بڑے بھائی نواب عبدالرحمان بگٹی کی زیرقیادت اٹھی تھی نواب عبدالرحمن بگٹی کے تیور اور ارادوں کو جان کرانگریزوں نے اصل نواب عبدالرحمن بگٹی کو ہٹواکر ان کی جگہ اکبربگٹی کو نامزدکروایاتھا جس کے نتائج بعد میں ہم سب پاکستانیوں نے دیکھے آپ بلوچستان کے کسی بھی علاقے کاجائزہ لے لیں مٹھی بھرمسلح افراد کے سوا عوام کی اکثریت محب وطن ہے اسلام پرعمل کرنے والی ہے مگر صوبائی اوروفاقی حکومتوں کی غلطیوں کے نتیجے میں وہ ان مٹھی بھرمسلح افراد کے ہاتھوں ملک کے دیگر خطوں کے عوام کی مانند یرغمال بنتی جارہی ہے اس لیے ضرورت اس امرکی ہے کہ اس تمام صورتحال کابھرپورجائزہ لیاجائے تاکہ بلوچستان کے عوام بھی ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ یہ بڑی ہی حیرت انگیز اوردکھ بھری بات ہے کہ بلوچستان جو رقبے کے اعتبارسے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اس صوبے کے مسائل کے بارے میں میڈیا جس میں پریس اور الیکٹرانک چینل بھی شامل ہیں حقائق کو یکسراندازکرکے محض یک طرفہ طورپر جس طرح بلوچستان کی صورتحال پیش کرر ہا ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ میں لاہورکراچی اور اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے سینئر صحافیوں اور ایڈیٹروں اورچینل کے اینکرپرسن سے ادب و احترام کے ساتھ اپیل کرتاہوں کہ یقیناً بلوچستان کی صورتحال کے بارے میں عوام کو بتائیں مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ بلوچستان کے دوردراز علاقوں کا دورہ بھی کریں اوربلوچ عوام کی اصل رائے سے بھی پاکستانی عوام اور دنیا کو آگاہ کریں تاکہ عوام تک سچ اورجھوٹ پہنچ جائے بلوچستان یقیناً پسماندگی کاشکارہے ایسا بھی ہے کہ یہاں تعلیم کی کمی ہے غربت بھی ہے اور بے روزگاری بھی ہے مگر اس کی اصل وجہ وہ نہیں ہے جس کو اکثرمیڈیا میں یا چینلوں میں آئے ہوئے مہمان بیان کرتے ہیں۔ بلوچستان کے عوام انتہائی محب وطن ہیں اور پاکستان کی خاطرہرطرح کی قربانی دینے کے لیے تیارہیں۔

No comments:

Post a Comment