Sunday, August 23, 2009

بلوچستان میں وسیع پیمانے پر زمینی آپریشن کا فیصلہ کرلیا گیا


بلوچستان کی صوبائی حکومت نے سانحہ مہمند آباد میں شہید ہو نے والے 20پولیس اہلکاروں کے قاتلوں کے خلاف وسیع پیمانے پر زمینی آپریشن کا فیصلہ کرلیا 

فرنٹیئر کور بلوچستان کانسٹیبلری اور اینٹی ٹیررسٹ فورس کی بڑی تعداد پولیس کی مدد کے لئے نصیر آباد روانہ کر دی گئی ہے

ڈیرہ مراد جمالی ۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت نے سانحہ مہمند آباد میں شہید ہو نے والے 20پولیس اہلکاروں کے قاتلوں کے خلاف وسیع پیمانے پر زمینی آپریشن کا فیصلہ کرل یا ہے فرنٹیئر کور بلوچستان کانسٹیبلری اور اینٹی ٹیررسٹ فورس کی بڑی تعداد پولیس کی مدد کے لئے نصیر آباد روانہ کر دی گئی ہے راکٹ لانچرز بکتر بند گاڑیاں اور بلٹ پروف جیکٹس بھی پہنچانا شروع کر دی گئی ہیں ایک ہفتے کے اندر فیصلہ کن کاروائی شروع کر دی جائے گی اس بات کا اظہار ڈی آئی جی سبی نظیر آباد پولیس غلام شبیر شیخ نے ڈیرہ مراد جمالی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ڈی پی او نصیر آباد نذیر احمد کر د سینئر پولیس آفیسر علی اکبر مگسی بھی اس موقع پر موجود تھے ڈی آئی جی نے کہا کہ شہریوں کی جان و مال کی حفاظت اور نجی و قومی املاک اور تنصیبات کے تحفظ اور حکومتی رٹ کو بحال رکھنے کے لئے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف سخت ترین کاروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ جو لوگ جرائم کے پیشہ عناصر کو سرپرستی یا مدد کرتے ہیں وہ بھی مجرم ہیں ان کو کسی بھی صورت معاف نہیں کیا جائے گا انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اغواء کاروں نے یر غمال کئے جانے والے پولیس اہلکاروں کو شہید کر کے اسلامی اقدار اور بلوچی و قبائلی روایات کی سنگین خلاف ورزی کر تے ہوئے انتہائی بزدلانہ فعل کا مظاہرہ کیا ہے ان کو ہر حال میں قانون کے شکنجے میں لایا جائے گا انہوں نے کہا کہ اگر جرائم پیشہ عناصر ایک گولی چلائیں گے تو پولیس جوابی کاروائی 100 گولی اور ایک راکٹ لانچر کے جواب میں دس راکٹ لانچر جلائے گی انہوں نے کہا کہ حکومت نے شہید ہو نے والے پولیس اہلکاروں کی 60 سال کی عمر کی حد تک ان کے لواحقین کو فی کس 10لاکھ روپے اور زخمیوں کے علاج کے لئے ایک لاکھ روپے اور شہید کوٹہ سے شہید اہلکاروں کے ورثاء کو ایک ایک ملازمت اور شہید اہلکاروں کی 60 سال کی عمر کی حد تک ان کے لواحقین کو تنخواہ فراہم کر نے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ کمشنر نصیر آباد ڈویژن ڈاکٹر ثاقب عزیز نے سانحہ چھتر کے شہید پولیس اہلکاروں کے لواحقین کے لئے ڈیرہ مراد جمالی میں رہائشی پلاٹس مفت فراہم کر نے کا اعلان کیا ہے

بلوچستان........ اغیار کی حریصانہ توجہ کا مرکز
کرنل غلام سرور 
معروف دانشور جاویدانور کے بقول ڈالر کے ”بلیک کنگ“ یا ”کالی دیوی“ کا اصل نشانہ بلوچستان ہے۔ صوبہ بلوچستان پاکستان کے کل رقبے کے 48 فیصد پر محیط ہے۔ مگر ملک کی صرف 4 فیصد آبادی یہاں بستی ہے۔ بلوچستان کے معدنی دولت کی فراوانی کا یہ عالم ہے کہ اس کی زمین میں پوشیدہ جملہ خزانوں کے ساتھ ساتھ یورینیم جیسے معدنی خزانے بھی موجود ہیں۔ اس کی زمینوں کے نیچے سیال سونا بھی بہتا ہے اور اس سیال سونے کی صرف ایک ذیلی پیداوار وہ گیس ہے جس پر وطن عزیز کے بیشتر کارخانوں کا انحصار ہے اور جس کی بدولت ہماری بستیوں کے گھروں میں چولہے جل رہے ہیں۔ بلوچستان میں چین کی مدد سے تیار کردہ گوادر پورٹ کو ملکی معیشت میں انتہائی اہمیت حاصل ہے اور اس کی جغرافیائی اور تزویراتی اہمیت کے پیش نظر پاکستان دشمن طاقتوں پر خوف اور سراسیمگی کی کیفیت طاری ہے اس گوادر پورٹ نے بحیرہ عرب کے تین ساحلوں کو اپنے قریب کردیا ہے۔ اس کی اسی اہمیت کے پیش نظر عالمی سطح پر امریکی ایماءپر اس طرح کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے کہ بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرکے اسے عملی اعتبار سے امریکا کی بالادستی میں دے دیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کو پاکستان سے کاٹ کر امریکی تحویل میں دینا اس عظیم عالمی سیاسی کھیل کا حصہ ہے جسے گلوبلائزیشن (Globalization) کے ماہر اور کتابوں کے مصنف پیپ سکوبار (Pep Escobar) نے بڑی تفصیل سے امریکا کے اصل عزائم کو طشت ازبام کرتے ہوئے اپنے ایک حالیہ مضمون میں Pipelistan کی سیاست پر روشنی ڈالی ہے اور کہا ہے کہ یہ دراصل ایپی ٹاپی (Ipi Tapi) کے مابین جنگ ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ ایران پاکستان اور بھارت کے مابین مجوزہ پائپ لائن منصوبے کو (Peace pipeline) بھی کہا جاتا ہے طے شدہ پروگرام کے تحت پائپ لائن نے بلوچستان سے گزر کر بھارت کا رخ کرنا تھا مگر امریکا اس منصوبے کا شروع سے ہی مخالف رہا ہے۔ اس کی بجائے وہ ٹاپی (Tapi) پر عمل درآمد چاہتا ہے جو ترکمانستان‘ افغانستان‘ پاکستان اور بھارت کے درمیان پائپ لائن ہوگی۔ یہ پائپ لائن منصوبے کے مطابق امریکا کے زیر اثر ترکمانستان سے نکل کر مغربی افغانستان میں ہرات سے ہوتی ہوئی اور ایک حصہ قندھار سے لیتی ہوئے قندھار سے گزرے گی۔ جانے یہ منصوبہ کب پایہ تکمیل تک پہنچے گا۔ سردست اس کا کوئی علم نہیں۔ اس وقت تو صورتحال کچھ یہ ہے کہ اس پائپ لائن سے تیل اور گیس کی بجائے مسلمانوں کا خون بڑی بھاری مقدار میں بہہ رہا ہے۔ اسی بناءپر واقفان حال اس پائپ لائن کو خون کی پائپ لائن کے نام سے پکارنے لگے ہیں۔ واشنگٹن کی تازہ ترین سوچ یہ ہے کہ وہ کابل میں متحارب مجاہدین قوتوں کو منظر سے ہٹا کر طالبان کو لانا چاہتا تھا تاکہ وہ ان کی مدد سے پائپلستان کے منصوبے کو عملی جامعہ پہنا سکے۔ لیکن طالبان نے پائپلستان کی مجوزہ کھدائی سے انکار کردیا اور اب ان کی اس گستاخی کا حشر ہم سب کے سامنے ہے۔ امریکا کی یہ مخصوص ادا ہے کہ ایسے افراد جو اس کے چشم ابرو کے اشارے پر رقص کرنے سے اپنی معذوری ظاہر کریں انہیں وہ عبرت کا نشانہ بناکر دم لیتا ہے۔ امریکا اب یہ چاہتا ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل کاکام پاکستان کے سپرد کردیا جائے اور اس کے تعاون سے پائپلستان کی کھدائی کا اہتمام کرنا چاہتا ہے۔ فنی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پائپلستان کی کھدائی کے عمل میں موجود پاکستان کا نصف حصہ بھی متاثر ہوگا۔ ظاہر ہے کہ اگر عوام اور افواج کو اس منصوبے پر مامور کردیا گیا تو اس کے خوشگوار نتائج برآمد نہ ہوں گے۔ لہٰذا اس منصوبے کی حتمی منظوری دینے سے پہلے اس کے مختلف پہلوﺅں کا بغور جائزہ لینا بے حد ضروری ہے۔ ہم نے اپنی گفتگو کا آغاز ان عناصر کے حوالے سے کیا تھا جنہوں نے اپنے اپنے مخصوص مقاصد کے پیش نظر بلوچستان پر نظریں گاڑ رکھی ہیں مگر اس کا کیا علاج کہ ہماری بات خونی پائپ لائن پر جا ٹوٹی جس کی ان دنوں ہنگامی بنیادوں پر منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ اب ہم اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ امریکا‘ یورپی ممالک اور وسطی ایشیائی ممالک سب بلوچستان کے معاملات میں اتنی غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کیوں کررہے ہیں؟۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ بلوچستان کو جغرافیائی لحاظ سے وسط ایشیاءمیں ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روس نے افغانستان پر حملہ کرنے کے بعد بلوچستان کے ذریعے وسطی ایشیا سے تجارت اور دیگر اہم معاملات مین اس کی بالادستی کی صلاحیت شناخت کرلی تھی اور ساتھ ہی یہ بھی واضح حقیقت ہے کہ پاکستان‘ بلوچستان کے راستے پر ایران‘ عراق‘ چین‘ افغانستان اور ہندوستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کو فروغ دے کر بڑی طاقت بننے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوسکتا ہے۔ تجارت‘ ٹیکنالوجی‘ معاشیات اور صنعت کی پیداوار پر اس کی گرفت مضبوط ہوسکتی ہے علاوہ ازیں وسطی ایشیاءاور مشرق وسطیٰ کے ممالک کی گیس اور تیل کی دولت کو بھی سمندر کے راستے یورپی ممالک تک باآسانی پہنچا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو بلوچستان کے بارے میں امریکا اور روس کی خصوصی دلچسپی کا جواز دکھائی دینے لگتا ہے۔ امریکا کی بلوچستان سے دلچسپی کا سبب یہ ہے کہ وہ ایک طویل مدتی پروگرام کے تحت چاہتا ہے کہ بلوچستان کے خطہ سے یورپی تک ایک محفوط اور قابل اعتماد راہ ہموار کرے اور وہ اس راہ کی بدولت ایشیائی ممالک‘ خصوصی طور پر بلوچستان‘ خلیج اور ایران سے تیل اور گیس متعدد امریکی ممالک اور یورپ تک لے جاسکے گا۔ اس مقصد کے لیے بلوچستان بحر ہند اور وسطی ایشیا کیلئے مختصر ترین راہ فراہم کرسکتا ہے اور امریکا یہ سہولت میسر آنے کے بعد چین پر بھی نگاہ رکھ سکے گا۔ بلوچستان سے خلیجی ممالک کا فاصلہ بھی کوئی زیادہ نہیں۔ امریکی اکابرین کی سوچ کے مطابق جب حالات سازگار ہوں تو امریکا وسطی ایشیا سے گیس اور تیل گوادر وہاں سے پسنی تک لے جاسکے گا جہاں سے امریکا کے لیے اس تیل اور گیس کا متحدہ امریکی ممالک تک لے جانا آسان ہوگا۔ اور آخر میں بلوچستان سے تعلق کے بارے میں امریکی عزائم کی جھلک آپ نے دیکھی۔ امریکا اور دوسرے کئی ممالک بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کے در پے ہیں مگر ہم ان طاقتوں کو بروقت آگاہ کیے دیتے ہیں کہ اگر انہوں نے اپنی سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی تو انہیں جون کی تپتی دوپہر کو تارے دکھائی دینے لگیں گے۔ آزمائش شرط ہے۔!!

اغیار کی سازشوں کا شکار‘ صوبہ بلوچستان
کرنل غلام سرور 
بلوچستان یوں تو ایک عرصہ سے بحرانوں کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے۔ مگر حالیہ دنوں میں ان بحرانوں کی شدت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے اور حالات تیزی سے غیریقینی صورتحال اختیار کرتے جارہے ہیں اور عوام میں اب بے چینی کا یہ عالم ہے کہ ملک دشمن عناصر علیحدگی کی باتیں بھی کرتے سنائی دینے لگے ہیں۔ ان انتہا پسند عناصر کے بقول بلوچستان کی علیحدگی کا مسئلہ اب نوشتہ دیوار ہے اور اب اسے زیادہ دیر تک روکا نہیں جاسکتا۔ یہ سوچ غیرملکی طاقتوں کے اشارے پر کام کرنے والوں کی جانب سے پھیلائی جارہی ہے۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے وہ مسائل کی سنگینی سے خوفزدہ ہیں مگر ان کی حب الوطنی ہر قسم کے شکوک و شبہات سے بالاتر ہے۔ ان کی حب الوطنی کسی اور پاکستانی شہری سے کچھ کم نہیں۔ یہ عناصر حکومت کی پالیسیوں پر نالاں ضرور ہیں۔ مگر وہ ملک سے علیحدہ ہونے کے بجائے‘ اپنے حقوق کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ اس تناظر میں حکمت اور دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ ارباب اختیار ماضی کی غلطیاں دہرانے کے بجائے عوام کے حقوق کا تحفظ کریں اور اُلجھے ہوئے مسائل کا حل تلاش کریں۔ بلوچستان کے عوام کو جن مشکلات کا سامنا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں اس صوبے میں تعمیر و ترقی کا کام نہ ہونے کے برابر ہوا ہے۔ مقامی سرداروں نے عوام کے حقوق پر جس طرح ڈاکہ ڈالا ہے اس کے نتیجے میں یہ محرومی دیکھنے میں آرہی ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ موجودہ حکومت‘ مسائل کی شدت کا احساس رکھتی ہے اور وہ اصلاح کی احوال کی تدابیر بھی اختیار کرنے میں مخلص دکھائی دے رہی ہے۔ حال ہی میں پیپلزپارٹی کے رہنما میاں رضا ربانی نے بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے پندرہ نکاتی سفارشات سینیٹ میں پیش کی ہیں۔ ان سفارشات میں کہا گیا ہے کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کا مسئلہ کو ترجیح بنیادوں پر حل کیا جائے ساتھ ہی بلوچستان رہنماوں کے قتل کی اعلیٰ سطح پر تحقیق کی جائے اور پہاڑوں میں چھپے ہوئے افراد سمیت تمام سیاسی رہنماوں سے مذاکرات کیے جائیں۔ بلوچستان میں رائلٹی کے لیے یکساں فارمولا طے کیا جائے اور صوبے سے تمام فورسز کو واپس بلایا جائے اور این ایف سی ایوارڈ‘ آبادی کی بجائے اراضی اور محصولات کی بنیاد پر دیا جائے۔ ان مطالبات کی روشنی میں یہاں ہم عرض کرتے ہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ ایک عرصہ سے حل طلب چلا آرہا ہے اور وقت کے ساتھ اس کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ درج بالا سفارشات کافی جامع ہیں اور ان سفارشات پر اگر صدق دل سے عمل کیا جائے تو بلوچستان کے عوام کی بے چینی کافی حد تک ختم کی جاسکتی ہے۔ ہم اوپر عرض کرچکے ہیں کہ بلوچستان کے عوام کو گمراہ کرنے اور انہیں علیحدگی پر آمادہ کرنے میں بیرونی عناصر کا ہاتھ ہے۔ وزیر داخلہ‘ رحمن ملک نے بڑے واشگاف لفظوں میں بھارت اور روس کو اس صورتحال کا ذمہ دار ٹہرایا ہے۔ ان کے بقول یہ دونوں ممالک بلوچستان میں امن قائم نہیں ہونے دیتے اور وہ باغی عناصر کو اسلحہ اور سرمایہ فراہم کررہے ہیں۔ ماضی میں بلوچستان کے حالات بگاڑنے میں غیرملکی ہاتھ ملوث ہونے کے بارے میں مختلف حکومتیں مختلف بیان دیتی رہی ہیں لیکن رحمن ملک نے سینیٹ میں سرعام یہ بیان دے کر بلوچستان کی اصل صورتحال‘ اہل وطن پر واضح کردی ہے۔ یہ ایک بدیہہ حقیقت ہے کہ بلوچستان پاکستان کا ایک انتہائی اہم صوبہ ہے اور اس کی اسٹرٹیجک لوکیشن (Strategic Location) اور اس کے وسائل پر ملک دشمن طاقتوں کی حریصانہ نگاہیں گڑی ہوئی ہیں۔ سرد جنگ کے زمانے میں سوویت یونین (حال روس) کی دلی خواہش تھی کہ وہ بلوچستان کی وساطت سے گرم پانی تک رسائی حاصل کرسکے اور اسی خواب کی تعبیر میںاس نے 1978 ءمیں اپنی فوج افغانستان میں اتاری تھی۔ سوویت یونین کی ریشہ دوانیوں اور بائیں بازوسے تعلق رکھنے والے عناصر کی سازشوں کے نتیجے میں ”پختونستان“ اور ”گریٹر بلوچستان“ کے نعرے سنائی دیتے تھے۔ سرحد اور بلوچستان میں قائم صوبائی حکومتیں‘ بائیں بازو کے نظریات سے کافی حد تک ہم آہنگ تھیں۔ اس لیے ”گریٹر بلوچستان“ کے نعروں کو کافی مقبولیت مل گئی تھی۔ بعد میں جب بلوچستان میں نیپ کی حکومت ختم کی گئی تو پھر وہاں فوجی آپریشن شروع کیا گیا۔ بلوچستان قوم پرست جماعتوں نے اس فوجی آپریشن کی بھرپور مزاحمت کی۔ اس مزاحمت میں انہیں افغان حکومت اور بالواسطہ سوویت یونین کی حمایت حاصل تھی۔ اس دوران نیپ کے بعض سرکردہ رہنما کابل چلے گئے اور وہاں سے بلوچستان میں مزاحمتی تحریک کی قیادت کی۔ معروف تجزیہ نگار‘ جاوید صدیق لکھتے ہیں کہ بلوچستان کے عوام بالخصوص قوم پرست جماعتوں کا ہمیشہ یہ شکوہ رہا ہے کہ اسلام آباد ان کے حقوق غصب کررہا ہے اور اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ آئین کے تحت عوام سے جس خودمختاری کا وعدہ کیا گیا تھا وہ ابھی تک پورا نہیں ہوا۔ اس کے برعکس ایوب خان‘ بھٹو اور پرویز مشرف کے ادوار کے فوجی آپریشنوں نے بلوچستان کے عوام کو پاکستان سے دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ انداز نے تو جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ بلوچستان کے عوام کی برہمی کی اصل وجہ یہی آمرانہ نظام ہی رہا ہے۔ اس نظام نے عوام کی آواز کو ہمیشہ دبانے کی کوشش کی ہے اور اس کا نتیجہ آج ہم سب کے سامنے ہے۔ بلوچستان کا معاملہ آئے دن بگڑتا جارہا ہے اور آج کے تناظر میں بلوچستان میں جو سازش ہورہی ہے اس کا مرکزی کردار بھارت دکھائی دیتا ہے اور اسے روسی حمایت بھی حاصل ہے۔ ان سازشوں کو پھلنے پھولنے کا موقع اس بنا پر مل رہا ہے کہ صدیوں سے بلوچ عوام محرومی کا شکار چلے آرہے ہیں اور وہ سرداری نظام کے چنگل میں پوری طرح جکڑے ہوئے ہیں اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے بلوچستان کے عوام کو سرداری نظام سے نجات حاصل کرناہوگی۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس تاثر کو بھی تقویت مل رہی ہے کہ بلوچستان میں بھارت اور روس کی مداخلت کے ساتھ ساتھ امریکا نے بھی حالات خراب کرنے میں اپنا کردار ادا کیا اس نے اپنی شاطرانہ چالوں سے سرحد اور بلوچستان سے دونوں صوبوں کو آگ میں دھکیل دیا ہے اور اس تناظر میں اگر بلوچستان میں بغاوت کے جذبات پیدا ہورہے ہیں تو اس کی ذمہ داری بھی بیرونی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کے ساتھ ساتھ اداروں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ جنہوں نے انسانی حقوق کی پامالی کی تمام حدوں کو پامال کردیا ہے۔

بلوچستان ماضی‘ حال اور مستقبل
ڈاکٹرممتاز عمر 
پاکستان کی بقاءاور سا لمیت کے لیے جو مسئلہ بڑی اہمیت رکھتاہے وہ یہ ہے کہ یہ ملک جن عناصر پر مشتمل ہے انہیں کس طرح متحد رکھ کر ایک وحدت کی حیثیت برقرار رکھی جائے کیونکہ یہ عناصر مختلف وجوہات کی بناءپر بڑی شدت کے ساتھ انتشار کا شکار ہیں۔ اگر یہ عناصر مربوط نہ رہ سکے تو استحکام اور ملکی سا لمیت خطرے سے دوچار ہوسکتی ہے اور سقوط ڈھاکا کے بعد ایسی کوئی بھی صورت اسلامی نظریے اور نظریہ¿ پاکستان پر قائم ہونے والی اس مملکت خداداد کے بارے میں سوال اٹھاتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بنیادی اکائیاں انتشار کا شکار ہیں اور کچھ قوتیں ان کو بڑھانے میں لگی ہوئی ہیں۔ آخر یہ خلا کیوں کر پیدا ہوا؟ اور کس طرح وسیع ہورہا ہی؟ اس کی جو وجوہات سامنے آتی ہیں وہ جغرافیائی ‘ لسانی اور معاشی ہیں۔ کیا ہم ایک قوم ہیں یاچار مختلف قومیں ہیں جو مصنوعی طور پر ایک سیاسی وحدت میں منسلک ہوگئی ہیں۔ یعنی سندھی‘ بلوچی‘ پٹھان اور پنجابی جبکہ مہاجر اور سرائیکی بھی منرد تشخص کے خواہاں ہیں۔ اسی طرح معاشی طور پر بھی دو طبقات سامنے آئے ہیں۔ امیر اور غریب‘ زمیندار اور کاشتکار‘ مزدور اور سرمایہ دار‘ بڑی تنخواہیں پانے والے افسر اور چھوٹے اہلکار۔ یہ دو مختلف گروہ ہیں جن کو معاشی بے انصافیوں نے ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ ایک بے بس اور لاچار اور دوسرا بالادست اور بااختیار۔ پھر صوبائی خودمختاری اور مالیاتی تقسیم کا معاملہ ہے کہ جس نے فاصلوں کو مزید بڑھایا۔ بلوچستان جو رقبے اور قدرتی وسائل کی کثرت کے باوجود غربت کی پستی میں ہے تو سندھ زیادہ ٹیکس جمع کرنے کے باوجود مالیاتی معاملات میں کم حصہ ملنے کا شاکی ہے اور صوبہ سرحد پن بجلی کی رائلٹی کا مطالبہ کررہا ہے۔ یہ معاشی ناہمواری بے چینی کو ہوا دیتی ہے اور پھر بلوچستان کے عوام حکومت کے سامنے آکھڑے ہوتے ہیں۔ طاقت کے ذریعے سے ان کو دبا کر ریاست کی سیاسی وحدت اور اس کے امن کو برقرار رکھنا ایک حد تک ممکن ہے مگر یہ چیز دلوں کو جوڑ کر وہ قلبی وحدت تو ہرگز پیدا نہیں کرسکتی جو ریاست کی اندرونی ترقی اور بیرونی خطرات کے مقابلہ میں اس کی متحدہ مدافعت کے لیے ضروری ہے۔ بلوچستان ایک بار پھر اس مقام پر کھڑا ہے جہاں ایک چنگاری زبردست دھماکے کا باعث ہوسکتی ہے۔ قدرتی گیس کے وسائل سے مالا مال اس صوبے میں خانہ جنگی نے وہ شدت اختیار کرلی ہے کہ تجارتی اور گھریلو صارفین ہر دو اس سہولت سے محروم ہوسکتے ہیں۔ یہی نہیں حکومت گوادر کی بندرگاہ کے ذریعے بلوچستان کے عوام کو معاشی خوشحالی کی نوید سناتی ہے تو مقامی آبادی سراپا احتجاج ہے۔ بلوچستان کے قبائلی معاشرے کو سمجھنے کے لیے تاریخ کی ورق گردانی کرنی ہوگی‘ کیونکہ تقسیم برصغیر کے موقع پر کانگریس اور انگریزوں کی باہمی سازش کے نتیجے میں اس خطے کو ایک آزاد ریاست اور ہندوستان کا حلیف بنانا تھا مگر محمد خان جوگیزئی اور میر جعفر خان جمالی جیسے جہاندیدہ قبائلی سرداروں کی حب الوطنی اور بروقت کارروائی نے اس خواب کو بکھیر کر رکھ دیا جب 3 جون 1947ءکے اعلان آزادی پر اے اے جی نے شاہی جرگے اور کوئٹہ میونسپل کارپوریشن کے ارکان سے رائے چاہی تو معاملے کو ٹالنے کے بجائے اسی وقت فیصلہ کردیا گیا۔ رہی ریاست قلات تو قائداعظم کی فراست نے اسے بھی پاکستان کا حصہ بنالیا‘ مگر افسوس بلوچ عوام اورقبائلی سردار اپنی تمام تر نیک نیتی اور حب الوطنی کے باوجود شک کی نگاہ سے دیکھے گئے۔ آج ایک بار پھر بلوچستان آگ اور خون کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ نادیدہ قوتیں بلوچ قوم پرستوں کو تختہ مشق بنا کر بلوچ عوام کو مشتعل کررہی ہیں۔ سابقہ دور حکومت میں جب چوہدری شجاعت حسین‘ مشاہد حسین سید اور وسیم سجاد نے مذاکرات کے ذریعے نواب اکبر بگٹی کو منانے کی کوشش کی اور تجاویز حتمی شکل پاچکیں تو مذاکرات ٹال دیے گئے اور پھر طاقت اور قوت کا بے جا استعمال کرکے اس بزرگ سیاستدان کو قتل کردیا گیا۔ بلوچستان سراپا احتجاج بنا رہا‘ پھر 18 فروری 2008 ءکے انتخابات کے بعد امید کا دیا جلا۔ برسراقتدار آنے کے بعد پیپلزپارٹی کی قیادت نے ماضی کے عمل پر معافی چاہتے ہوئے بلوچستان کی ترقی کے وعدے کیے خیرسگالی کے اظہار میں گرفتار بلوچ رہنماوں کو رہا کیا گیا‘ مذاکرات کی میز سجائی گئی۔ حالات کچھ بہتری کی طرف آنا شروع ہوئے اور پھر صدرمملکت کے دورہ¿ کوئٹہ کے دوران بڑے وعدے اور دعوے سامنے آئے۔ ابھی امن کی فاختہ فضاوں میں موجود تھی بلوچستان کے عوام خوش کن مستقبل کے خواب کے طلسم میں گرفتار تھے ابھی صدرمملکت کے دعوے اور وعدے کی گونج محسوس کی جارہی تھی‘ بلوچ اپنے زخموں کے کھرنڈ نظرانداز کرکے خوش گماں تھے‘ ابھی بلوچوں کا متشدد گروہ اقوام متحدہ کی یقین د ہانی پر ان کے مغوی کو رہا کرنے پر آمادہ ہوا تھا‘ ابھی مغوی اپنے گھر بھی نہ پہنچا تھا کہ اچانک سب کچھ بدل گیا۔ بلوچ انگشت بدنداں رہ گئے دوستی اور اعتبار و اعتماد کے بدلے انہیں ان کے پیاروں کی نعیش دے دی گئیں نعیش بھی ایسی جو مسخ کردی گئی تھیں۔ بلوچستان کوئی مشرقی پاکستان تو نہیں جسے ایک بوجھ سمجھ کر کاٹنے کی سازش کی گئی۔ یہ تو آپ کا سرمایہ ہے صنعتی ترقی کی کلید یہیں ہے۔ یہاں موجود وسائل کا اندازہ بھی نہیں کیا جاسکا۔ گیس‘ تیل‘ کوئلہ‘ تانبا‘ سونا اور فولاد کے وہ ذخائر جو ملکی ترقی اور بلوچستان کی خوشحالی کے ضامن ہیں۔ یہی نہیں گوادر کی بندرگاہ جس کے ثمرات بلوچوں کی جھولی میں آیا ہی چاہتے ہیں کہ اس کی بدولت وسط ایشیا تک کی تجارت کی راہیں کشادہ ہوں گی۔ مگر یہ سب خواب اس وقت بکھر کر رہ جاتے ہیں جب نادیدہ قوتیں اور ملک دشمن طاقتیں یکجا ہوکر بلوچستان میں لگی آگ کو بھڑکانے کی کوشش کرتی ہیں۔ ہمارے ارباب اختیار و اقتدار حالات حاضرہ سے چشم پوشی کررہے ہیں یہ وقت زخموں پر مرہم رکھنے کا ہے۔ بلوچستان کو امداد نہیں ان کا حق دیجئے انہیں مسائل نہیں وسائل میں حصہ دیجئے‘ محض زبانی دعووں اوروعدوں کے بجائے عملی اقدامات کیجئے پراسرار طور پر غائب لوگوں کو منظر عام پر لایئے‘ سیاسی قوتیں مذاکرات کا آغاز کریں‘ ناراض عوام کو منانے کے لیے رعایتیں دیجئے ‘ ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کے بجائے وسیع القلبی کا ثبوت دیجئے۔ محبت‘ ایثار‘ ہمدردی اور حب الوطنی کو مقدم جانتے ہوئے آج بھی بلوچستان کو بچانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ دیکھیں ارباب حل و عقد کیا کرتے ہیں؟ انہیں یہ ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ بلوچستان کے عوام کی اکثریت محب وطن ہے۔ وہ پاکستان سے نہیں پاکستان کے حکمرانوں سے ناراض ہے۔ ا

بلوچستان ۔ حقائق کے آئینے میں 
کرنل غلام سرور 
برےگےڈےئر محمد اسماعےل صدےقی ، ادبی دنےا کا اےک معروف نام ہے۔اب تک ان کی چودہ کتابےں چھپ کر اہل فکر ونظر سے دادوتحسےن وصول کرچکی ہےں۔دواور کتابےں ، زےرطبع /زےر ترتیب ہےں۔وہ لکھتے ہےں، خوب لکھتے ہےں، اور بے تکان لکھتے ہےں۔عسکری موضوعات کے علاوہ ،انہوں نے اپنے گردوپےش کے ثقافتی اور تہذےبی روےوں کی بھی بھرپور عکاسی کی ہے۔زےر نظرکتاب بنےادی طورپراےک رپورتاژ ہے۔مگر ان کی جادوبےانی کاکمال ےہ ہے کہ انہوں نے اس رپورتاژ کو بھی ادب بنادےا ہے۔اور ساتھ ہی اسماعےل صدےقی کے اندرچھپاہوا،ادےب اور محقق بھی ابھر کر سامنے آگےا ہے۔ کتاب آئےنہ بلوچستان مےں انہوں نے بلوچستان کے باسےوں کو بڑے قرےب سے دےکھا ہے اور صرف دےکھنے پر اکتفانہےں کےا، بلکہ وہ اپنے قاری کو بھی اپنے ساتھ لے کر چلے ہےں۔ اس طرح انہوں نے اپنے پڑھنے والوں کو بھی بلوچستان کے باشندوں کے دکھ سکھ کو بہت قرےب سے دےکھنے کے مواقع فراہم کئے ہیں۔کتاب کی اےک اور امتےازی خوبی ےہ ہے کہ خوبصورت انداز مےں لکھی گئی ےہ تصنےف، بلوچستان کی ثقافتی، سماجی اور تہذےبی رواےات کی بھی بڑی خوبصورتی سے ترجمانی کرتی ہے، اور ساتھ ہی وہ اس صوبے کی جغرافےائی اور تزوےراتی اہمےت پر بھی سےر حاصل تبصرہ کرتی ہے۔ اس طرح بلوچ عوام کے نفسےاتی اورسماجی تجزےے کے ساتھ ساتھ کتاب مےں ہمےں بلوچستان کی جغرافےائی اور تزوےراتی سے بھی آگہی ملتی ہے۔اورمصنف کا انداز بےان اتنا خوبصورت ہے کہ پڑھنے والے پرسرمستی کی اےسی کےفےت طاری ہوجاتی ہے۔اور بے اختےار پکاراٹھتاہے” ےک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہےے“۔ کتاب کے ابتدائی حصے مےں، مصنف نے بلوچستان کے اقتصادی مسائل کا جائزہ اور ان کا ممکنہ حل تجوےز کےا ہے، اور انتہائی دانشمندی سے ان راہوں کی نشاندہی کی ہے،جو بلوچستان جےسے پسماندہ صوبے کو حقےقی عظمت کی منزل تک لے جاسکتی ہےں۔فاضل مصنف کے بقول ، مری بگتی مےں بسنے والے قبائل کو طوےل عرصہ اندھےروں مےں ٹھوکرےں کھانے کے بعد اب حال ہی مےں ےہ احساس ہوا ہے کہ ووٹ کااصل حقدار کون ہے، کےونکہ اس سے قبل توحق اور باطل کا فےصلہ ان کے سردار کےا کرتے تھے، ان سرداروں نے جملہ حقوق اپنے نام محفوظ کررکھے تھے۔اور انہےں ےہ خوش فہمی تھی کہ ان کا فرماےا ہوا، حرف ، حرف آخر ہے،اور وہ سند کا درجہ رکھتا ہے۔ قبائلی نظام کے خدوخال بےان کرتے ہوئے، برےگےڈےئرصدےقی مزےد لکھتے ہےں کہ ان سرداروں نے اپنے قبےلے کے غرےب اور پسماندہ عوام کو ےہی باورکراےا تھا کہ ان کی بہتری اور بقااسی مےں ہے کہ وہ تعلےم کے نزدےک بھی نہ پھٹکےں، کےونکہ فرنگےوں کالاےا ہوا علم نہ صرف انہےں،بلکہ ان کے تمدن کو بھی برباد کردےگا۔اس طرح ےہ عوام تارےکےوں مےں دھکےل دئےے گئے۔اورتارےکی مےں رہتے ہوئے ، تارےکی کو ہی روشنی سمجھنے لگے ہےں۔ مصنف کے خےال مےں ان دبےزتہوں کو اترنے مےں خاصاوقت لگے گا۔اورعلم کی روشنی پھےلنے مےں عرصہ لگے گا۔کےونکہ ےہ اےک مسلمہ امرہے۔صدےوں کی تارےکی آن کی آن مےں دور نہےں ہوسکتی۔وےسے ےہ امر خوش آئندہ ہے کہ جہاں ، جہاں علمی بالخصوص اسلامی تعلےمات کا چرچا ہے، وہاں سے مسلمان کندن بن کے نکلے ہےں، اوران کے دلوں مےں اسلام کے لئے بے پاےاں شےفتگی دکھائی دےتی ہے، اور انہےں اپنے وطن سے بھی بے پاےاں عقےدت ہے،اوروہ سرعام، بغےر کسی ذہنی تحفظ کے اعلان کرتے ہےں کہ وہ جو کچھ ہےں، پاکستان کے طفےل ہےں، اور اس کی خوشحالی مےں ہی ان کی خوشحالی کا راز مضمر ہے۔ ”دردمنت کش دوانہ ہوا“ کے زےر عنوان ، برےگےڈےئر صدےقی قبائلی سرداروں کے حوالے سے لکھتے ہےں کہ تارےخ گواہ ہے کہ ماضی مےں قبائلی عوام نہ صرف اپنے سرداروں کے حکم کے سامنے سر تسلےم خم کردےتے تھے، بلکہ اپنے سر بھی کٹوادےتے تھے۔ اور سرداروں نے اپنے قبائل کے اس خراج عقےدت کی قےمت، باہروالوں سے وصول کی، اور خوب جی بھرکے وصول کی۔مراعات کی شکل مےں، نوازشات کی شکل مےں ، نقدی کی شکل مےں، مگر جان ہتھےلی پر رکھنے والوں کو کچھ نہےں ملا۔ اب حالات نے پلٹا کھاےا ہے، اورآج ضرورت اس امر کی ہے کہ صدےوں سے محرومی کی شکار اس قوم پر ملک کے ارباب اقتدار اوراےسے احباب کی نظر کرم ہو، جو ےہاں کے لوگوں کی خدمت کرسکےں۔ مگر اس کا کےا علاج کہ چارسو بے حسی کا عالم ہے۔اس حوالے سے لازم ہے کہ اقتصادی ترقی کو ےقےنی بناےا جائے تاکہ انفرادی وسائل کو بروئے کار لاےا جاسکے، اور بلوچستان کے ساحل پر موجود ان علاقوں پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے، جن مےں بندرگاہ بننے کی صلاحےت ہے۔اےسا ہوجائے تو پسماندگی مےں پسے ہوئے بلوچی عوام کی تقدےر مےں انقلابی تبدےلےاں رونما ہوسکتی ہےں۔اور ان وسائل سے حاصل کی ہوئی ترقی ، ترقی معکوس نہےں ہوگی، بلکہ تمناﺅں کی تکمےل اور خوابوں کی تعبےر کی جانب اےک قدم ہوگا۔ گوادر کے حوالے سے برےگےڈےئر صدےقی کا تجزےہ، حقےقت پسندانہ ہے، انہےں اس بات کااطمےنان ہے کہ دےر سے سہی، اب ارباب اقتدار پر گوادر کی بندرگاہ کی اہمےت اجاگر ہوئی ہے۔اور انہوں نے نہ صرف اس کے بارے مےں سوچنا شروع کردےا ہے، بلکہ ان سوچوں کو عملی جامہ پہنانا بھی شروع کردےا ہے۔اورچےن نے اس بندرگاہ کی اسٹرٹےجک اہمےت کااچھی طرح اندازہ لگالےا ہے اور ےہی وجہ ہے کہ اس کی تکمےل کی غرض سے اربوں ڈالر کی Investmentکرنے کو تےارہوگیا ۔گوادر کی ےہ تعمےر وترقی صرف اس کی بندرگاہ کی سہولتوں کو بہتر بنانا نہےں تھی، بلکہ اےک بارمکمل ہوجانے سے اسے بذرےعہ سڑک افغانستان اور کئی وسطی اےشےاءکی رےاستوں تک ملاناتھا، اس کے علاوہ چےن اور شمالی ہندوستان کو اس سے منسلک کرنا تھا۔ اس مےں شک نہےں کہ گوادر کی کامےابی کاانحصار بڑی حد تک بلوچستان مےں استحکام اور بالخصوص پاکستان کی سالمےت پر منحصر ہے۔ المختصر ،مصنف نے انتہائی اختصار سے کام لے کر حقائق کی بوقلمونی کونوک قلم سے آشنا کردےا ہے، اور بلوچستان کی متنوع زندگی کے مختلف پہلوﺅں کو خوبصورتی سے اجاگر کےا ہے۔اس خوبصورت کاوش پر ہم فاضل مصنف کو ہدئےہ تبرےک پےش کرتے ہےں۔ (آئےنہ بلوچستان ، دوست پبلکےشنز نے اسلام آباد، لاہور، کراچی سے شائع کی ہے۔231صفحات کی کتاب کی قےمت260/=روپے ہے)۔

بلوچستان سے جنوبی پنجاب تک
سید منور حسن 
بلوچستان اس وقت بارود پر بیٹھا ہواہے، مختلف علاقوں سے پاکستان کا پرچم اتار دیا گیاہے، قومی ترانہ پڑھنے پر پابندی ہے، آباد کاروں اور دوسرے صوبوں سے آنے والوں کی ٹارگٹ کلنگ ہورہی ہے۔یہ سب باتیں ایک سو ایک فیصد بھی درست ہوسکتی ہیں لیکن مسئلہ زیربحث یہاں سے شروع نہیں ہوتا۔بگاڑ کا آغاز فوجی آپریشن سے ہوا۔بھٹو،ضیاءاور مشرف دور میں ہونے والے تین آپریشن تو بہت نمایاں ہیںاور ان کے ذریعے بلوچوں کو بہت زخم لگے ہیں۔ اس کے باوجود اگر وہ پاکستان کے اندر رہ کر اپنا حق اور صوبائی خودمختاری مانگتے ہیں تو یہ قابل تحسین بات ہے۔ اتنے آپریشنز کے بعدبھی اگر وہ پاکستان میں شامل ہیں تو ان کو داد دینی چاہیے بجائے اس کے کہ ان پرطرح طرح کے الزامات لگائے جائیں اور طعنے دیے جائیں کہ تمھارارویہ حب الوطنی کے منافی ہے۔ یہ مسئلہ صرف قوم پرستی کا نہیں ہے، لوگ اس طرح اظہار خیال سے معاملات کو کنفیوژ کرتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ بلوچوں کے ساتھ ظلم ہواہے اورانھیں آئینی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ بلوچوں کوان کے حقوق دینے اور انھیں برابر کا شہری تسلیم کرنے کے بجائے اسلام آباد کی ہرحکومت اوراسٹیبلشمنٹ نے کمیٹیاں دے کراور امدادی پیکیجز کااعلان کرکے انھیں بہلا نے کی کوشش کی۔چوہدری شجاعت حسین کمیٹی، سید مشاہد حسین کمیٹی،ڈاکٹر بابراعوان کمیٹی۔”کمیٹیاں دے کے بہلایاگیاہوں‘ ‘۔ یاپھر مختلف امدادی پیکیجز کا اعلان ہوا،پرویز مشرف کے بعد آصف زرداری صاحب نے بھی دو مرتبہ اربوں روپے کے پیکیج کا وعدہ کیا، معافیاں مانگیں مگربلوچوں کو ملتا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس طرح تو زیادہ دیرتک بچے بھی نہیں بہلتے۔ بلوچ دانا و بینا ہیں، اپنے تجربے سے بھی انھوں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ دودھ کے جلے ہیں چھاچھ کو پھونک پھونک کر پی رہے ہیں۔وہ نادان تو نہیں ہیں کہ ہمیشہ کھوکھلے نعروں اور جھوٹے وعدوں سے بہل جائیں۔ وزیراعظم نے حالات کی سنگینی کے پیش نظر بلوچستان پر اے پی سی کا اعلان کیا تھا مگر اب انھوں نے اس مسئلے پر خاموشی اختیار کرلی ہے۔ہم مسلسل یہ بات کہتے رہے ہیں کہ بلوچستان کے مسئلے پر اے پی سی ضرور ہونی چاہیے مگر پورے ہوم ورک کے ساتھ ہونی چاہیے۔ روٹھے ہوئے بلوچوں کومنایاجائے کیونکہ ان کی شرکت کے بغیر ہونے والی اے پی سی بے معنی ہوگی۔ بلوچوں کی کچھ شرائط ایسی ہیں جن کو اے پی سی سے پہلے مان لینا چاہیے تاکہ ان کو یقین ہو کہ ہم سے دھوکہ نہیں کیا جارہاہے اور ہمارے لیے کوئی جال نہیں بچھایا جارہاہے۔ صوبائی خودمختاری اور وسائل پربلوچوں کا حق تسلیم کرنے جیسے مطالبات پراے پی سی سے پہلے ہی عملدرآمد کردینا چاہیے۔ اسی طرح اکبر بگٹی کے قتل کی ایف آئی آر پرویز مشرف کے خلاف درج کی جائے اور اسے کٹہرے میں لایا جائے۔پرویز مشرف نے اسلام آباد میں کھڑے ہوکراکبر بگٹی کو دھکی کے انداز میں کہا تھا کہ” ایک چیزآکر تم کو ہٹ کرے گی اور تمھیں پتہ بھی نہیں چلے گا۔“ واقعی ایک چیز نے آکر اسے ہٹ کیا اور اسے پتہ بھی نہیں چلا۔ پھر اقوام متحدہ کے امریکی اہلکار جان سولیکی کی رہائی میں اہم کردار ادا کرنے والے تین بلوچ رہنماو¿ں جنھیں شہدائے تربت کا نام دیا گیاہے، کے قتل کی ایف آئی آرمقتولین کے ورثا کی مرضی کے مطابق درج کی جانی چاہیے۔ اس حوالے سے ایک اور بڑی اہم بات یہ ہے کہ بلوچوں نے پورے ہوم ورک کے ساتھ سینکڑوں بلوچوں کی فہرست جاری کی ہے جو لاپتہ ہیں۔ ان میں ایک سو بیس کے قریب خواتین بھی ہیں۔ زمین ان کو نگل گئی ہے، آسمان اچک کر لے گیا ہے۔ یہ کسی کے باپ ہیں،کسی کے بیٹے ہیں،کسی کے بھائی ہیں، کسی کے شوہر ہیں، کسی کی مائیں ہیں، کسی کی بیٹیاں ہیں، کسی کی بہنیں ہیں۔ حکومت کو بتانا چاہیے کہ یہ مرد وخواتین کہاں ہیںاور کس حال میںہیں۔اور ہمدردانہ رویہ اپناتے ہوئے ان کی فوری بازیابی کے لیے اقدامات کرنے چاہیےں۔ یہ بارہ سو تو” اسلامی دہشت گرد“ ہونے کے الزام سے بھی پاک ہیں۔کسی کے ساتھ بھی اس طرح کا ناروا سلوک کیاجائے،زیادتی اور ظلم پر مبنی رویہ اختیار کیا جائے تو طبیعت اور مزاج ایک انتقامی ذہن میںڈھل جاتاہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ جنوبی پنجاب میں بھی بلوچستان جیسامنظر نامہ تخلیق کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ اگروہاں بھی آپریشن شروع ہوجاتا ہے تو ایک خوفناک منظر نامہ وجودمیں آئے گااورپورے ملک میں ایک انتشار اور انارکی کی کیفیت پیدا ہوگی۔ ہماری اطلاع کے مطابق ڈیرہ غازی خان میں بلوچستان اور ڈیرہ اسماعیل خان سے ملحقہ پہاڑی علاقوں اور دروں پر ملٹری اور پیراملٹری فورسز نے قدم جما لیے ہیں، مورچے بنا لیے ہیں۔ پلوں پر اپنے ڈیرے بسالیے ہیں۔سڑکوں پرپیراملٹری فورسز کا گشت جاری ہے، دریائی پتنوں پر کشتیوں کے ذریعے آنے جانے والوں کی تلاشی لی جاتی ہے اور ویسے حالات پیدا کیے جارہے ہیں جیسے سوات میں ابتدائی دنوں میں تھے۔ ڈی جی خان کے مدرسے میں سرچ آپریشن، بارود کا ٹرک پکڑنے اور پولیس مقابلے کی من گھڑت خبر چلوائی گئی۔واقعہ شادن لونڈمیں نہیں بلکہ اس کے قریب سیہانی بستی میں ہواجو ڈاکو¿وں کی بستی کے نام سے مشہور ہے،اور وہاں سرے سے مدرسہ ہی نہیں ہے۔ جرائم پیشہ افراد کے اڈے کو ایک سازش کے تحت مدرسے کا رنگ دیاگیاجبکہ ملزمان کے خلاف تونسہ اور دیگر تھانوں میں منشیات اور اسلحے کی اسمگلنگ اور پولیس مقابلوں کے کئی مقدمات درج تھے۔ میاں چنوں میں ہونے والے دھماکے کی جگہ کو بھی مدرسے کا نام دیا گیا۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ ابھی تک خاموش ہیں کہ ڈیرہ غازی خان اور میاں چنوں میں جو ڈرامہ رچایا گیا،اور امریکی جن پنجابی طالبان کی دہائی دے رہے ہیں، ان کے خلاف فوجی آپریشن کی بات کررہے ہیں، اور رحمان ملک جس کی گواہی دے رہے ہیں، اس پر ان کا کیا مو¿قف ہے۔ کیونکہ وہ اس سوات آپریشن کے تو بڑے حامی ہیںاور اس کوناگزیر سمجھتے ہیں جس کے نتیجے میں اڑتیس لاکھ لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ پنجاب کے عوام جاننا چاہتے ہیں کہ جنوبی پنجاب میں جس آپریشن کی تیاریاں ہورہی ہیںوہ اس کی حمایت کریں گے یا اس بارے میں کوئی اور دلیل ہے جو وہ لوگوں کو فراہم کریں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکمرانوں کو آنکھیں کھولنی چاہییںاوران حالات کو ازخو دیکھنا چاہیے، ان کی باریکیوں کا سمجھنااوران کا توڑ کرنا چاہیے۔ انھیںپاکستان میں امریکی ایجنڈے کو لے کر چلنے اور اس کی ترجیحات کی ترجمانی کرنے سے باز آجانا چاہیے۔ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ وطن عزیز میںانارکی پھیلے، فوج اور عوام باہم دست و گریبان ہوں،فرقے اور مسلک ایک دوسرے سے لڑنا شروع کردیں، کراچی اور اس کے گردونواح میں لسانی وحدتیں اورا کائیاں بکھر جائیں اور لوگ ایک دوسرے کے مقابلے پر ہوں۔اور اس انارکی کے نتیجے میں اسے کہوٹہ تک پہنچنے اور ہمارے ایٹمی اثاثوں کو اقوام متحدہ کی تحویل میں دینے کے لیے پروپیگنڈے میں سہولت حاصل ہوجائے۔ اگر ہمارے حکمران یہ بات نہیں سمجھتے ہیںتو عوام کو یہ بات لازماً سمجھنی چاہیے اورپاکستان کو امریکی چراگاہ بننے سے بچانے کے لیے ”گوامریکہ گو“تحریک کا بھرپورساتھ دیناچاہیے۔
بیرونی اور اندرونی قوتوں کا تختہ مشق بلوچستان
ثمرہ جمیل مرزا 
ایک ناقابل تردید تاریخی حقیقت جس کی بازگشت عملی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے‘ اس امر کی گواہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو ناقابلِ بیان نقصانات خود اپنے اندر سے مسلمانوں ہی کے ہاتھوں اپنی یا ان کی بداعمالیوں کے ذریعے پہنچے ہیں۔ آج وطنِ عزیز میں وہی اندر کی جنگ برپا ہے جو کھلے دشمن کے ساتھ ہونے والی جنگ سے بدرجہا خطرناک، دشوار اور تباہ کن ہے۔ اس سے قبل ایسی ایک جنگ 1971ءمیں ملک کو دولخت کرچکی ہے جو ہمارے سفاک دشمن کے زعمِ باطل کے مطابق مطالبہ¿ پاکستان کے بنیادی دوقومی نظریے کو خلیجِ بنگال میں ڈبو دینے کے مترادف تھی۔ یہ تو قادرِ مطلق کو منظور نہیں تھا‘ کہ جن محترم ہستیوں کو یہ نظریہ فیضانِ نظر کے طور پر عطا کیا گیا ان کی توہین ناقابلِ قبول ٹھیری اور اس جنگ کے تینوں آرکیٹکٹ ذلت و نامرادی کی حسرت ناک موت سے کیفر کردار کو پہنچے۔ البتہ یہ جنگ بہرحال اپنے منطقی انجام کو پہنچی اور برادرانِ قوم جنہوں نے 1947ءمیں اسی دو قومی نظریے کے حق میں اپنا تمام وزن ڈالا تھا اور جن کو سینے سے لگانے کے لیے ہمارے جسم میسر نہ آسکے وہ دشمن کے گلے لگ کر مشترکہ وطن کا گلا کاٹنے پر مجبور ہوگئے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ مشرقی پاکستان کی اس تمام صورت حال کے عوامل کی عدالتی تحقیقات کے لیے جسٹس حمود الرحمان کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا گیا تھا جس کی رپورٹ کا اُس وقت کے حکمرانوں جناب ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر مرد ِحق ضیاءالحق اور برسر اقتدار خصوصی رفقاءنے تفصیلی مطالعہ کیا اور اسے بلا وجہ اپنے اختیارات میں دفن کردیا۔ کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ حقائق کو عوام کے سامنے پیش کرسکے۔ وقت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ یہ رپورٹ اپنی تمام تر پابندیوں اور پیش بندیوں کے باوصف ہمارے دشمن کے ہاتھ جالگی اور ٹائمز آف انڈیا میں شائع ہوگئی۔ گویا اپنے مسخ شدہ چہرے کو دیکھنے کے لیے آئینہ بھی ہمارے ازلی دشمن نے فراہم کیا۔ رپورٹ کے مطابق ثابت ہوا کہ ہم نے یہ جنگ اپنے بیرونی دشمنوں لیکن اندرونی دوستوں کے بھرپور تعاون سے ہاری۔ لیکن اس رپورٹ کو ہماری عسکری اور سیاسی قیادتوں نے اپنے اپنے جرائم کی پردہ پوشی، نااہلی اور بدعنوانیوں کو عوام سے پوشیدہ رکھنے کے لیے برسر عام نہ ہونے دیا۔ ایک ایسی ہی تشویشناک صورت حال ملک کی شمال مغربی سرحدوں کے اندر اپنی پوری تباہ کاریوں کے ساتھ برپا ہی، جہاں وسیع علاقے میں عسکریت پسند قرار دیے جانے والوں کے خلاف کارروائی کے نام سے اہل وطن کے خلاف گرم جنگ جاری ہی، جبکہ بلوچستان میں ایک دوسری طرز کا بدرجہا تشویش خیز اور نتائج کے اعتبار سے خوفناک کھیل پڑوسی ملک بھارت اور افغانستان کے عملی تعاون اور امریکا کی منصوبہ بندی سے جاری ہے‘ جس کی بساط کے مہرے پست تر کردار کے حامل اور شخصی وقار سے محروم فردِ واحد کا ترتیب دیا ہوا مقتدرہ گروہ ہے جس میں ایسی صورت حال سے نبرد آزما ہونے کی نہ تو صلاحیت ہے اور نہ ہی قومی ترجیح ہے۔ وہ بلوچستان کو ایسے قیامت خیز حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اسلام آباد میں اپنی حکمرانی کی نمائش، خوش پوشی اور نئے بیرونی دوروں کی منصوبہ بندیوں میں مصروف ہیں۔ تصویر کا ایک رخ تو وہ ہے جس کی ابتدا سوئی گیس فیلڈ کالونی میں سرکاری ہسپتال کی ایک خاتون ڈاکٹر کی آرمی کیپٹن کے ہاتھوں مبینہ بے حرمتی پر جاری احتجاج سے ہوئی جس کے اثرات ملحقہ ڈیرہ بگٹی تک دراز ہوگئے۔ اس شرمناک واردات کو مقامی بگٹی آبادی نے اپنی توہین تصور کیا۔ یوں احتجاج میں شدت اور وسعت کے علاوہ گیس تنصیبات کو کچھ نقصان بھی پہنچایا گیا اور حالات بتدریج بگڑتے چلے گئے‘ یہاں تک کہ 16مارچ 2005ءکو ڈیرہ بگٹی میں بمباری کرکے تمندار نواب محمد اکبر بگٹی جیسے بزرگ سیاستدان اور نفیس انسان کو کوہلو کے پہاڑی سلسلے کی غلیظ غاروں میں پناہ لینے پر مجبور کردیا گیا۔ یہیں پر 26اگست 2006ءکو پاکستان کے سابق وزیر داخلہ، بلوچستان کے سابق گورنر اور وزیراعلیٰ نواب محمد اکبر بگٹی کو میزائلوں کے حملے میں اپنے متعدد جانثاروں کے ساتھ شہید کردیا گیا۔ نواب صاحب محترم کی شہادت سے پیدا ہونے والے جوشِ انتقام اور بدگمانیوں نے پورے صوبہ بلوچستان میں آج تک ایک طوفان برپا کررکھا ہے‘ لیکن یہ امر شرمناک حد تک قابلِ افسوس ہے کہ اسلام آباد کا حکمران طبقہ اس طوفان کی شدت کو کسی معقول پیمانے سے ناپنے سے قاصر ہی، بلکہ کسی قومی تعلق کی اساس پر مو¿ثر احساسِ ذمہ داری تک مفقود ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ کسی بھی تعلقِ خاطر کی بنیاد اعتبار اور ایفائے عہد پر ہوتی ہے۔ شکست ِعہد اور اعتبار کے بعد تعلق قائم رکھنا نہایت دشوار ہوتا ہے اور اسی شکست ِتعلق سے برآمد ہونے والی بداعتمادی خیر کی منازل تک پہنچانے وال شاہراہوں کو ناہموار، پیچیدہ اور مسدود کرڈالتی ہے۔ ایسے ہی حالات کا منطقی نتیجہ ہے کہ بلوچستان کی نئی نسل کا ملک سے جذباتی، قومی اور سماجی تعلق آہستہ آہستہ کمزور تر ہورہا ہے۔ اس زوال پذیر اعتماد اور تعلق کو بندوقوں، ٹینکوں اور فوجی چھاﺅنیوں کے ذریعے سے نہیں بلکہ صرف عدل اور انصاف کی قوت سے قائم رکھا جاسکتا ہے۔ آج حالات اس نہج پر پہنچ رہے ہیں کہ بلوچستان میں پیدا ہونے والے غیر بلوچ دادوں اور باپوں کی اولادوں کو خونریز انتقام کا نشانہ بنا کر اور ان گنت برسوں سے بسے ہوئے خاندانوں کو صوبے سے بے دخل کرنے کا عمل جاری ہے۔ خصوصی طور سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے خاندان خطرناک حد تک غیر محفوظ ہیں اور یہ ایسی صورت حال ہے جس کا بھرپور فائدہ بھارت اور امریکا اٹھا رہے ہیں‘ اور ان قوتوں کو فکری اور سیاسی مدد کے ذریعے مزید مضبوط کرنے میں اپنا گھناﺅنا کردار ادا کررہے ہیں جو ہمہ اقسام شدت پسند اور دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ بھارت کے اس شرمناک کردار کے واضح ثبوت، واقعاتی شہادتوں کے ساتھ شرم الشیخ کی غیر وابستہ ممالک کی کانفرنس میں ہمارے وزیراعظم نے پیش کیے تھے۔ یہ وہی بھارت ہے جس کی محبت ہمارے صدر محترم کے اعلانات میں پھوٹتی رہتی ہے‘ جو واشنگٹن کی لَے پر نہایت ڈھٹائی سے کیے جاتے رہے اور سفاک بھارت کو اپنے لیے کوئی خطرہ قرار نہ دینے کی طفلانہ بیان بازیاں کرتے رہے ہیں۔ صدر آصف زرداری نے چند ماہ پیشتر بلوچستان کے دورہ کے موقع پر بلوچستان سے گزشتہ برسوں میں روا رکھی گئی زیادتیوں پر معافی تو طلب کرلی تھی اور ان کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے خطیر رقوم مختص کرنے کے اعلانات بھی کیے‘ لیکن نا انصافیوں کا مستقل ازالہ کرنے کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت یا پیش رفت سامنے نہیں آرہی۔ بلوچوں سے فوری انصاف کی ایک عملی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ ان کے مطالبے کے مطابق جنرل پرویز مشرف اور اس کے خلاف ِقانون احکامات کی بجا آوری میں ملوث افراد پر بلالحاظ ِعہدہ اور ادارہ جاتی تعلق کے نواب محمد اکبر بگٹی کے بہیمانہ قتل کے الزام میں مقدمہ قائم کیا جائے اور ملک کی اعلیٰ عدلیہ سے جرم ثابت ہونے پر مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ یہاں یہ سوال غالباً ضرور اٹھے گا کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی جنہوں نے پرویز مشرف سے وزارتِ عظمیٰ کا حلف لیا اور صدر آصف زرداری جنہوں نے پرویز مشرف کے نامزد غیر آئینی چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر سے حلف لیا وہ آمر پرویز مشرف کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے کوئی کردار ادا کرنے کا حوصلہ اور جرا¿ت کریں گی؟ (جاری ہے)

بیرونی اور اندرونی قوتوں کا تختہ مشق بلوچستان (2) 
ثمرہ جمیل مرزا 
پاکستان پیپلز پارٹی کا اب تک کا جو موقف سامنے آیا ہے اس کے مطابق وہ سپریم کورٹ کے 3نومبر2007ءکے غیر آئینی اقدامات کی عدالتی کارروائی اور فیصلوں کے سلسلہ میں غیر جانبدار رہنے کا ہے ۔ جبکہ سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے خلاف غیرآئینی اقدامات، 12 اکتوبر 1999ءاور 3نومبر2007ءکے مارشل لاﺅں کے سلسلہ میں آئین کی دفعہ 6کے تحت سنگین غداری کی عدالتی چارہ جوئی کا اصولی اور آئینی فیصلہ پارلیمان پر چھوڑ دیا ہے۔ جو موجودہ حکمرانوں پر عوام کا وہ قرض ہے جسے چکائے بغیر کوئی چارہ کار نہیں۔ حکمران قیادت کے لیے مناسب اور اصولی فیصلے کرنے کی راہ میں بہت سی مشکلات حائل ہوسکتی ہیں۔ لیکن مشکل فیصلے ہی بد اقتصادی کی دیواریں گرانے کے لیے وقت کی اہم ضرورت ہوتے ہیں۔ اعتماد اور تعلق قائم رکھنے کے لیے مشکلات کا کڑوا گھونٹ پینا ہی پڑے گا۔ تصویر کا ایک دوسرا رخ اس سے بدرجہا افسوسناک ہے۔ صوبائی دارالخلافہ کوئٹہ کے علاوہ دوسرے بڑے شہروں میں کالجوں اور اسکولوں کے بیگناہ پرنسپل اور پروفیسروں کو ٹارگٹ کلنگ سے شہید کیا جارہا ہے ۔ یہ اس سلسلہ کی تازہ ترین وارداتیں ہیں جن کے تحت انتقام میں اندھے بلوچ دہشت گرد، عظیم پاکستانی بلوچستان کی حمایت کرنے والے ماہرین تعلیم کو نہایت بیدردی سے قتل کررہے ہیں جنہوں نے اپنے خون جگر سے اس بے وسیلہ خطہ میں تعلیم سے بے بہرہ لوگوں کے تاریک آنگنوں میں علم کی شمعیں روشن کیں۔ کراچی اور اندرون ملک سے آنے والی ریلوے ٹرینوں میں بم دھماکے کرکے بیگناہ مسافروں کو ہلاک کیا ہے۔ ریلوے ٹریک، ریلوے پل بم دھماکوں سے اڑائے گئے ہیں۔ پولیس اور نیم فوجی اہلکاروں کو اغوا اور یرغمال بنا کر اپنے مطالبات منظور نہ ہونے پر بتدریج ہلاک کیا جارہا ہے۔ قدرتی گیس سپلائی لائنوں اور الیکٹرک پولوں کو بم دھماکوں سے اڑا کر ان بنیادی ضروریات زندگی کی ترسیل میں بے قاعدگی پیدا کی گئی ہے۔ اب سے کچھ عرصہ پیشتر حکومت پاکستان نے امریکا کو ان دہشت گرد کارروائیوں کے ٹھوس ثبوت پیش کیے تھے کہ کس طرح بھارتی خفیہ ادارے افغانستان کے صوبہ ہلمند اور قندھار سے بلوچستان کو مقامی شدت پسندوں کے تعاون سے نشانہ بنانے میں مصروف ہیں۔ دہشت گردی کی ان کارروائیوں میں شہید نواب محمد اکبر بگٹی کے ایک پوتے کی جانب سے مرکزی کردار ادا کرنے کی بھی باضابطہ تصدیق ہوچکی ہے۔ کم از کم آٹھ غیر ملکی خفیہ ایجنسیاں دہشت گردی کی ان سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ اور مقامی گمراہ شدت پسندوں کی حوصلہ افزائی اور معاونت کررہی ہیں۔ اہم تنصیبات پر راکٹ فائر کرنے کے واقعات تو جنوری 2005ءسے ریکارڈ پر ہیں اور اس بات کے ناقابل تردید ثبوت مل چکے ہیں کہ شہید نواب صاحب کے براہ راست روابط بھارتی اور حامد کرزئی کے تخریب کاروں سے رہے ہیں۔ ان کے ہونہار پوتے جناب یرہمداغ بگٹی کی بھارت کے خفیہ ادارے کے حکام کے ساتھ کابل اور نئی دہلی میں ملاقاتوں کی تصاویر بھی موجود ہیں اور اس بات کے ثبوت بھی حاصل ہوئے ہیں کہ بلوچستان کے قبائلی سرداروں کو جنوب مغربی پاکستان سے الگ ہو کر خلیج کے شیوخ کی پرآسائش زندگی گزارنے کے پُرفریب سنہرے خواب دکھائے گئے ہیں۔ نواب اسلم رئیسانی کی صوبائی حکومت تو ان تخریب کاروں کی دہشت گرد کارروائیوں کی مذمت سے تاحال گریزاں ہے لیکن گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی کا واضح موقف سامنے آیا ہے کہ بلوچستان اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں اور علیحدگی پسندوں سے کسی گفت و شنید کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یاد رہے کہ نواب ذوالفقار علی مگسی اپنے قبیلے کے سربراہ ہیں یہ قبیلہ ضلع جھل مگسی میں آباد ہے جہاں کی آبادی تقریباً ڈیڑھ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے لیکن اس سے ملحق سندھ کے ضلع شہداد کوٹ کے وسیع علاقہ میں تقریباً چھ لاکھ مگسی قبائل آباد ہیں اس لحاظ سے نواب ذوالفقار مگسی کا اثر و رسوخ بلوچستان کے ساتھ ساتھ صوبہ سندھ میں بھی موجود ہے۔ آپ کے ایک بھائی میر قادر علی مگسی سندھ صوبائی حکومت میں وزیر خوراک و زراعت ہیں خود نواب ذوالفقار مگسی دوبار صوبائی وزیر تعلیم اور وزیر داخلہ کے علاوہ دوبار بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔ ان کی سیاسی رائے کا وزن تسلیم کرنا ضروری ہوگا۔ ایک صاحب طرز تجزیہ نگار محمود علی شاہ بلوچستان کی تاریخ اور مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ذاتی مشاہدات اور تجربات پر مبنی ان کی ایک قابل مطالعہ کتاب شائع ہوئی ہی، جس کی تعریف جناب محمد جاوید اعوان نے اس کتاب کے دیپاچہ میں تحریر کی ہے۔ اور اہل بلوچستان کے عمومی رویوں کا نہایت زود فہم تجزیہ پیش کیا ہے۔ بلوچستان کے وسیع و عریض صوبے کے اندر کئی خصوصی خطے ہیں جہاں زندگی مختلف سطحوں پر سانس لیتی ہے۔ ہر خطے کی سماجی معاشرتی اور معاشی اقدار میں محسوس حد تک فرق پایا جاتا ہے۔جس کی واضح بنیاد تعلیمی اور معاشی مواقع کی ناہمواری اور ذرائع مواصلات کی شدید کمیابی ہے۔ دشوار گزاری نے روابط کو ایک مخصوص خطے تک محدود کرتے ہوئے مقامیت کو پیدا کیا ہے جن علاقوں تک نا رسائی زیادہ ہے وہاں مقامیت کی عصیبت بھی زیادہ اور غربت و محکومی کی گرفت بھی سخت ہے ۔ جہاں تک آمدورفت کی نسبتاً کسی قدر آسانی اور روابط میں آسانیاں ہیں وہاں سماجی رویوں میں کشادگی اور فراخدلی کا عنصر پایا جاتا ہے۔ بلوچ شخصیت مردانہ وار جیسے کا نام ہے جس میں ذاتی وقار، قبائلی عصبیت اور انتقام کے لیے سب کچھ قربان کیا جاسکتا ہے۔ اس طرز معاشرت کے بعض پہلو جہاں نہایت قابل قدر ہیں وہیں ان کی مبالغہ آمیز اشکال سخت ترین مصائب پیدا کرتی اور زندگی کو حاصل آسانیوں سے محروم کردیتی ہیں۔ قناعت اور انا بلوچوں کی سب سے اہم طاقت اور دولت ہے۔ ان کی انا اسی استغناءسے پھوٹتی ہے جو ماحول کا سیاسی و سماجی جبر ان پر مسلط کرتا اور ان کی انانیت کو پروان چڑھاتا ہے۔ اختلاف وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں انانیت کی اخلاقی اساس ختم ہوجانے کے باوجود اس پر اصرار قائم ہی نہیںبڑھتا بھی رہتا ہے جسے دور کرنے کے لیے ان رویوں اور مسائل کا برادرانہ دہانت سے ادراک اور انہیں حل کرنے کے لیے مساویانہ جہد عمل نہایت لازمی ہے۔ ملک کے تمام دوسرے حصوں میں جاری ترقیاتی منصوبوں کے تناظر میں اہل بلوچستان کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ وہ خود اپنے مفاد میں سوچیں کہ مقامی قومیتوں کی باہم بدگمانیوں کی شدت، اہل علم و فن کا ناجائز اخراج، محنت طلب صنعتوں میں کاموں سے اغماض، تعلیم میں سست کوشی، مصنوعی سیاسی قیادت کی نفرت پر استوار تنظیموں پر انحصار، جدید دور کی فنی تعلیم کا فقدان ،منفی قدامت پسندی پر اعتماد، یہ سب عوامل اس کی ترقی کے سفر کو کھوٹا تو نہیں کررہے۔ محض اجالوں کی تمنا سے تاریکیاں دور نہیں ہوں گی۔ مساویانہ حقوق کے حصول کے لیے مسابقت کی دوڑ میں علم و ہنر کی بنیاد پر مساوی جدوجہد کرنا ہوگی۔ شاید کہ کسی دل میں اتر جائے میری بات، اللہ کریم میرے ملک کے اس مضبوط بازو کو سلامت رکھے۔(آمین)

بلوچستان کے مسائل (1)
متفرق 
رقبے کے اعتبارسے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کے عوام اس وقت کئی طرح کے مسائل کا شکار ہیں ایک جانب ان کی صدیوں پر محیط ‘ پسماندگی‘ بھوک‘ افلاس‘ غربت‘جہالت اوراکیسویں صدی میں جدید تعلیم سے محرومی اور بے بسی ہے حتیٰ کہ بلوچستان کے بے شمار ایسے علاقے ہیں جہاں پینے کا صاف پانی تو دورکی بات ہے باسی پانی بھی میسرنہیں ‘سڑکوں کی نوعیت اس طرح کی ہے کہ کئی کئی سومیل کا فاصلہ طے کرلیاجائے مگر سوائے کچی پگ ڈنڈیوں کے جو جانوروں اور گاڑیوں پرچلنے کے نتیجے میں بنتی ہیں کچھ بھی موجود نہیں ہے ۔وہ فاصلہ جوعموماً ایک گھنٹے یا چند گھنٹوں میں طے ہوتاہے محض اس کو طے کرنے کے لیے 6‘6یا 8‘8 گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ جتنی دیرمیں لاہورسے اسلام آباد پہنچتے ہیں اتنی دیرمیں صرف سومیل کا فاصلہ طے کیاجاتاہے۔ اس عالم میں اگرکوئی بیمارہوجائے یا حادثہ ہوجائے تومریض کو قریبی ہسپتال لانے کے دوران ہی اس کا امکان رہتاہے کہ وہ مریض اپنی جاں سے ہاتھ دھوبیٹھے‘ دوسری جانب بلوچستان کے عوام کا سب سے بڑا مسئلہ اس غربت‘ پسماندگی‘ بھوک ‘افلاس‘ غربت‘ جہالت اوراکیسویں صدی میں جدید تعلیم اورمیڈیکل کی سہولتوں سے محرومی کے باوجود ان کے وہ سردار جو سال کے زیادہ ترحصے میں ملک سے باہر یا اپنے علاقے سے باہر رہتے ہیں کوئٹہ‘ کراچی‘ یا لاہوریا اسلام آباد کے پوش علاقوں میں اپنے محلوں یا فائیو اسٹارہوٹلوں میں بیٹھ کر ان پسماندہ بلوچ عوام کے نام پر ترجمانی کے فرائض کو انجام دینا افسوسناک اورمضحکہ خیزہے۔ بلوچ عوام کے یہ ترجمان جن کے بچے پاکستان میں اور پاکستان سے باہر یورپی ممالک میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اگرچہ بلوچوں کے مسائل کا بہت ہی تذکرہ کرتے ہیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے ان سرداروں کی جانب سے خودکبھی کبھی غریب بلوچ عوام کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش نہیںکی گئی ہے جیساکہ خود ڈیرہ بگٹی ہی کی مثال لے لی جائے۔ اگرچہ ڈیرہ بگٹی میںگیس کی موجودگی کی وجہ سے ماضی میں رائلٹی کی مد میں ہرسال حکومت کی جانب سے اورحکومتی اداروں کی جانب سے ہر سال اربوں روپوں کی رقم خاموشی کے ساتھ دے دی جاتی تھی مگر اس کے بارے میں بگٹی عوام کو کبھی بھی یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ وہ رقم کتنی ہے اور کس کے پاس جاتی تھی؟ اور اس کا کیا استعمال ہوتاتھا؟ یہ کسی کو بھی نہیں معلوم تھا اور اب بھی معلوم نہیں ہے۔ بگٹی قبیلہ جو چھ مرکزی شاخوں ‘راہیجہ‘ کلپٹر‘مسوری‘ نوتھانی‘ شمببانی‘ پیروزانی پرمشتمل ہے اس کی اہم ترین شاخ مسوری قبیلے کے مرکزبیکڑکی کیفیت اس طرح کی ہے کہ اب تک ڈیرہ بگٹی سے یاکسی بھی بڑے شہرسے بیکڑجانے کے لیے کسی بھی طرح کی کوئی سڑک سرے سے موجود ہی نہیں ہے اگرچہ کہ اب ہم اکیسویں صدی میں داخل ہوکر اب پہلے عشرے کے خاتمے کی جانب گامزن ہیں مگربیکڑشہرسے کسی مریض یا کسی خاتون کو ڈلیوری یا کسی بھی وجہ سے ڈاکٹر یا ہسپتال لے جانے کی کوشش کریں تو ڈیرہ بگٹی کے قریبی علاقے بلوچستان کے ضلع بارکھان کے شہر رکھنی تک جوبیکڑسے محض 90 میل کے فاصلے پرہے انتہائی تیزرفتاری کے ساتھ جانے کی صورت میں 6 سے 8 گھنٹے لگ جاتے ہیں یہ اس لیے ہے کہ محض نوے میل کے اس فاصلے میں کسی بھی طرح کی کوئی سڑک کبھی تعمیر ہی نہیں کی گئی جس کے نتیجے میں بیکڑبلوچستان کے اہم ترین علاقے میں واقع ہونے کے باوجود انتہائی پسماندہ ترین علاقہ شمارکیاجاتاہے بیکڑسے ڈاٹسن پک اپ پر جو کھلاٹرک ہوتاہے بیٹھ کر رکھنی جانے کے لیے ایک طرف کا کرایہ 300 روپے ہے جو عوام کے لیے انتہائی گراں ہے اس سے اس سفرکی طوالت اور سڑک کی حالت کا اندازہ کیاجاسکتاہے شاید اس پر آپ کوحیرت ہوکے کئی عشروں سے بگٹی قبیلے کے سردار اور ان کی جانشین کبھی بیکڑ اس لیے نہیں آئے کہ فوروھیل ایئرکنڈیشنڈ گاڑیوں کے باوجود ڈیرہ بگٹی سے بیکڑ تک کا سفران کے لیے باعث تکلیف ہوسکتاتھا۔ بگٹی قبیلے کی اہم ترین شاخ مسوری کے سربراہ علی محمدمسوری ہیں جوکہ بگٹی قبیلے میں مراتب کے اعتبارسے چیف آف بگٹی قبائل ہیں ان کا نمبربگٹی قبیلے کے سردارکے بعد دوسرے نمبرپرآتاہے یعنی بگٹی قبیلے کے سردارکے بعد چیف آف بگٹی قبائل ہیں چیف آف بگٹی قبائل علی محمدمسوری کی ذاتی کوششوں کے نتیجے میں بیکڑ میں گورنمنٹ کی جانب سے اسکول قائم کرلیے گئے تھے جہاں مسوری عوام کے بچوں نے بڑی تعداد میں مڈل اورہائی اسکول تک تعلیم حاصل کی اسی طرح چیف آف بگٹی قبائل علی محمدمسوری کی ذاتی کوششوں کے نتیجے میں اس کوشش میں بیکڑ کے اردگردبہنے والی دوپہاڑی ندیوں پرچھوٹے چھوٹے ڈیم تعمیرکردیے گئے تھے ان ڈیموں کے باعث بیکڑ اور اس کے گردونواح کے علاقے کے عوام ہزاروں سال سے اس بنجر اور بے آباد زمین کو آباد کرنے میں اس طرح سے کامیاب ہوگئے کہ یہاں کپاس کی سب سے بہترین فصل پیدا ہونے لگی بیکڑ کی کپاس اس وقت بہترین کپاس میں شمارکی جاتی ہے ۔دوسری جانب بہترین گندم بھی یہاں پیدا ہوتی ہے چیف آف بگٹی قبائل علی محمدمسوری کی ذاتی کوششوں کے نتیجے میں مسوری قبیلے کے عوام کے معیار زندگی میں اگرچہ تبدیلی بھی واقع ہوئی ہے مگر اس قدر بہترنہیں ہوئی جس قدر چیف آف بگٹی قبائل علی محمدمسوری چاہتے تھے کہ ہرمسوری گھرمیں خوشحالی آجائے۔ کیونکہ بگٹی قبیلے کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے چیف آف بگٹی قبائل سردار علی محمدمسوری کی ان کوششوں کو کبھی بھی اچھی نظروں سے نہیں دیکھا گیا شائد ان کی خواہش تھی کہ عوام خصوصاً بگٹی عوام ہمیشہ ان کے دست نگاہ رہیں وہ اپنے ہر ہرمسئلے کے حل کے لیے ان ہی کی جانب دیکھیں ان کی بارگاہ کا رخ کریں ان کو یہ بات پسند نہیں تھی کہ بگٹی عوام اپنی مدد آپ کے تحت جدوجہد کرکے کسی بھی طرح سے ترقی حاصل کرلیں اسی لیے جب مسوری عوام کے شعورمیں بلندی ہونے لگی اور ان میں خوشحالی ہونے لگی تو اس اعلیٰ قیادت نے پہلے تو مسوری قبیلے کو پیغام بھیجا کہ وہ پاکستان کے خلاف کی جانے والی بغاوت میں حصہ لیں جب مسوری قبیلے کے عوام کی اکثریت نے ان کے اس فیصلے کو مستردکردیا تو خود مرحوم نواب اکبربگٹی کے حکم پر ان کی نجی فوج یا فراریوں نے مسوری بگٹی قبیلے کے اس مرکز پر باقاعدہ حملہ کیا ان کی پکی ہوئی فصلوں کو نذرآتش کردیا اسکولوں کو یہ کہہ کر تباہ وبرباد کیاگیا کہ بگٹی قوم تعلیم حاصل کرکے بزدل ہورہی ہے اوربیکڑ اور اس کے اردگردکے علاقے کو چھوڑکر بارکھان اورڈیرہ غازی خان صوبہ پنجاب میں پناہ لینے پرمجبورہوگئے ۔اس صورتحال کا بگٹی مسوری شاخ اور ایف سی کی جانب سے جب جواب دیا گیا تو یہ فراری فرارہونے پر مجبور ہوگئے ۔ ایف سی ہی کی مدد اور تعاون سے بیکڑچھوڑنے والے مسوری کئی برس کے بعد اپنے اپنے گھروں میں واپس آئے اور انہوں نے اپنے اپنے گھروں کو آبادکیا۔ اب یہ پہلی بارہواہے کہ بلوچستان اور قومی اسمبلی میں بگٹی عوام کے حقیقی نمائندے بگٹی قوم کی ترجمانی کے لیے موجود ہیں اس وقت صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی کے حوالے سے بگٹی عوام کے اصل مسائل کے لیے آواز بلند کی جارہی ہے اس حوالے سے میں یہ ضروری تصورکرتاہوں کہ یہ بھی تذکرہ کرتا چلوں چیف آف بگٹی قبائل سردارعلی محمدمسوری کی شدید ترین خواہش ہے کہ ڈیرہ بگٹی اوربلوچستان کے عوام تعلیم حاصل کرکے جہاں اپنے معاشی حالات بہتربنائیں وہیں ایک اچھے پاکستانی بن کے پاکستان کی ترقی میں اپنا کرداراداکریں۔ (جاری ہے )

بلوچستان کے مسائل (دوسرا اورآخری حصہ )
متفرق 
ان کی اس خواہش کا اظہار اس طرح سے ہوتاکہ ڈیرہ بگٹی کی تاریخ میں پہلی باربیکڑ سے بارکھان جانے والے راستے پرپختہ سڑک تعمیرکی جارہی ہے اس وقت چونکہ فنڈزکی کمی ہے اس لیے سردست یہ پروجیکٹ کئی فیزمیں مکمل ہوگا اس وقت پہلے مرحلے میں 14 کلومیٹرطویل سڑک تعمیرکی گئی ہے جس کا اہم ترین حصہ کئی میل طویل پہاڑکو کاٹنا تھا جس کے نتیجے میں تقریباً 25 میل لمبا راستہ کم ہوکر محض 14کلومیٹر رہ گیاہے چیف آف بگٹی قبائل علی محمدمسوری اورمیرا اور میرے ساتھیوںکا ارادہ ہے کہ آئندہ ہربرس اس سڑک کے مختلف مراحل کو مکمل کرتے ہوئے ضلع بارکھان تک لے جائیں گے جس کے نتیجے میں جہاں بیکڑکے عوام کے لیے بے شمار سہولتیں پیداہوں گی وہیں یقیناً ان کی زندگیوں میں ایک انقلاب بھی رونماہوگا یہاں اس سڑک کی تعمیر کے نتیجے میں جہاں اس علاقے کی زرعی پیداوار ملک کی اہم مارکیٹوں اورمنڈیوں میں پہنچ سکے گا اس کے نتیجے میں علاقے کے عوام کا معیار زندگی بہترہوگا یہاں ڈاکٹر بھی باآسانی آسکیں گے ٹیکنیشن اوردیگراہل ہنربھی آئیںگے روزگارکے نت نئے مواقع پیداہوں گے اور اس پروجیکٹ کا اہم ترین پہلویہ بھی ہے کہ اس سڑک سے صرف مسوری بگٹی ہی فائدہ نہیں اٹھائیں گے بلکہ اس علاقے میں بسنے والے تمام قبائل خواہ وہ کھیترانی ہوں یا مری ہوں سب ہی اس کا فائدہ اٹھائیں گے اس طرح ضلع ڈیرہ بگٹی کے محب وطن پاکستانی پاکستان کی ترقی میں اپناکردار بخوبی اداکرسکیں گے میں آپ کویقین دلاتاہوں کہ ضلع ڈیرہ بگٹی میں بسنے والے عوام پاکستان کے کسی بھی حصے میں بسنے والے عوام کی مانند محب وطن ہیں اور پاکستان کی تعمیروترقی میں اپناکردار اداکرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح بیکڑ صوبہ بلوچستان کا واحد علاقہ ہے جہاں چیف آف بگٹی قبائل سردار علی محمدمسوری نے حکومت کی معاونت اور امن وامان کو بہتر بنانے اورعوام کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے تھانے کے لیے مفت جگہ فراہم کی جہاں پر پولیس کا تھانہ اس وقت زیرتعمیرہے۔ علاقے کے عوام کی بہتر تعلیم کے لیے ہائی اسکول کی تعمیرکاسلسلہ بھی جاری ہے اسی طرح پہلی باراس خطے میں ایک پارک بھی زیرتعمیرہے جس کا افتتاح عنقریب ہوجائے گا جب کہ آئندہ برسوں میں بیکڑ میں ہسپتال خواتین کے لیے طبی مراکز اور دیگر اہم منصوبوں کو مکمل کیاجائے گا۔ یہاں یہ بھی ذکرکردیاجائے کہ یہ ایسے پروجیکٹ نہیں تھے جو پہلے نہیں کیے جاسکتے تھے اور نہ ہی ایسا تھا کہ ان کے لیے فنڈز فراہم نہیں کیے جارہے تھے اب سے قبل جب جنرل رحیم الدین صوبے کے گورنرتھے ان کے دورمیں بہت سے ترقیاتی کام انجام دیے گئے مگر اس کے بعد ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈز تو بہت رکھے گئے مگر ان کا کیا بنا یہ کچھ نہیں معلوم؟۔ بات دور نکل گئی بنیادی طورپر جو غلطی ہورہی ہے وہ یہ کہ صرف اور صرف یک طرفہ موقف کو سنا اور اسی کو پسند بھی کیاجارہاہے حالانکہ حقائق ان سے یکسر مختلف ہیں اس کی مثال میں ڈیرہ بگٹی ہے پیش کرتاہوں میں 24 جون 2007ءکے اس جرگے کا تذکرہ کرنا ضروری تصورکرتاہوں کہ 24 جون 2007ءکو ڈیرہ بگٹی شہرمیں جو ضلع ڈیرہ بگٹی کا مرکز ہے منعقدہونے والے اس جرگے میں جس میں بگٹی قبیلے کی تمام چھ شاخوں کے سرداروں وڈیروں اور سرٹکریوں نے یہ چیف آف بگٹی قبائل سردارعلی محمدمسوری کی زیرقیادت شرکت کی تھی اس جرگے کے تمام شرکاءکی حمایت سے چیف آف بگٹی قبائل سردارعلی محمدمسوری نے اعلان کیاتھا کہ اب بگٹی قبیلے میں سرداری نظام کاخاتمہ کردیا گیاہے اس فیصلے کی تمام بگٹی قبیلے کی جانب سے حمایت کی گئی۔ اس جرگہ کے بعد مری قبیلے کی حدودمیں نواب اکبربگٹی ایک حادثے یا واقعے کے نتیجے میں خالق حقیقی سے جاملے۔ جس کے بعد عملاً بگٹی قبیلہ میں کوئی سردارتھا ہی نہیں جس کی بہت سی وجوہات میں سے دومندرجہ ذیل ہیں۔ (1) قبیلے کے جرگے کے فیصلے کے تحت بگٹی قبیلے سے سرداری اورنوابی نظام کاخاتمہ ہوگیا۔ (2) نواب اکبربگٹی کے فوت ہوجانے کے بگٹی قبیلے سے سرداری اورنوابی نظام کاخاتمہ ہوگیا۔ اس طرح بگٹی قبیلے میں کسی طرح کاکوئی سرداری یا نوابی نظام اب موجود نہیں تھا یہ نظام اب بگٹی قبیلے کے قوانین اورروایات کے مطابق ہی جرگے کے متفقہ فیصلے کے بعد ہی قائم ہوسکتا تھا اور بگٹی قوم کی روایات اور قانون کے مطابق کسی بھی نئے سردارکے لیے ضروری ہے کہ سرداربنتے وقت تمام شاخوں کے سربراہ سرداروڈیرے ‘ اورسرٹکری موجود ہوتے ہیں جو پگ پہنانے کی روایتی رسم میں حصہ لے کر سردارکی سرداری کی تائیدکرتے ہیں مگر سوئی کے مقام پر کی جانے والی اس دستاربندی میں بگٹی قبیلے کے رواج کے بالکل برخلاف اقدامات کیے گئے پہلی بات تویہ ہے سرداربننے کے لیے ضروری تھا کہ پگ بندی کی رسم ڈیرہ بگٹی میں اداکی جاتی جو بگٹی قوم کا مرکزہے۔ راہیجہ شاخ جس سے نواب اکبربگٹی کا تعلق تھا اور میرعالی بھی اسی شاخ کا نمائندہ ہے نواب اکبربگٹی کے بیٹے مرحوم سلیم بگٹی کے بیٹے میرعالی بگٹی کو نواب بنانے کے لیے سوئی کے مقام پرجو رسم اداکی گئی اس موقع پربگٹی قوم کے اہم ترین فرد احمد ان بگٹی جوکہ ایم این اے ہیں اوربگٹی قبیلے کی راہیجہ شاخ سے ہی ان کا تعلق ہے جو سردارخیل ہیں موجود نہیں تھے اور خود نواب اکبربگٹی کے تینوں بیٹے طلال بگٹی(شاہ زین بگٹی کے والد) اورجمیل بگٹی اور شاہ زوربگٹی جوکہ میرعالی بگٹی کے چچا ہیں اس موقع پر موجود نہیں تھے جبکہ طلال بگٹی کا بیٹا شاہ زین بھی جو میرعالی کا کزن ہے وہ بھی موجود نہیں تھا اس طرح خود راہیجہ شاخ میں اس موقع پر اختلاف ہواہے جبکہ بگٹی قبیلے کی دیگرچارشاخوں مسوری بگٹی کے سربراہوں میں سے خود‘ یعنی علی محمدمسوری چیف آف بگٹی قبائل۔جلال خان کلپربگٹی سردارکلپربگٹی‘ زبیرخان سردار‘شمبانی بگٹی اورمندرانی بگٹی قبیلے کے سربراہ باروزخان مندرانی بگٹی کے سربراہ بھی اس تقریب میں سرے سے موجود ہی نہیں تھے اس صورتحال میں جبکہ بگٹی قبیلے کے جرگے کی مشترکہ قرارداد اورفیصلے کی تحریر ابھی خشک ہی نہیں ہوئی ہے یہ کس طرح سے ممکن ہے کہ بگٹی قبیلے کی روایات کے برخلاف کسی ایسے فردکو جس پرقبیلے کے افراد تو الگ بات ہیں اس کے خاندان کے افرادتک متفق نہیں ہیں سرداریانواب مقررکردیاجائے ایسا سردارکیا کام انجام دے گا؟ اور اس کے کیا نتائج برآمدہوں گی؟ ان کا تذکرہ غیرضروری ہے مگر یہاں پریہ عرض کرنا انتہائی ضروری تصورکرتاہوں کہ انتظامیہ کے ان ہی فیصلوں کی وجہ سے اب تک بلوچستان مسائل کا گڑھ بناہواہے حالانکہ اگر حکومت اور ذمہ دارادارے عوام کی رائے کے مطابق اور حقائق کی بنیاد پر فیصلے کریں تو شاید ان کو بہترصورتحال ملے اور ان کے وسائل پاکستان کی ترقی کے لیے صرف ہوں۔ قیام پاکستان کے وقت بلوچ عوام کی اکثریت نے تحریک پاکستان کا ساتھ اس لیے دیا تھا کہ ان کو یہ امید تھی کہ قائد اعظم کی زیرقیادت مسلم لیگ ان کو اس صدیوں پرانے سرداری نظام سے نجات دلادے گی تاریخ کو سامنے نہیں لایاجاتاہے خودبگٹی قبیلے کے اندربھی حقوق کے شعورکے لیے تحریک قیام پاکستان سے قبل اٹھی تھی جو نواب اکبربگٹی کے بڑے بھائی نواب عبدالرحمان بگٹی کی زیرقیادت اٹھی تھی نواب عبدالرحمن بگٹی کے تیور اور ارادوں کو جان کرانگریزوں نے اصل نواب عبدالرحمن بگٹی کو ہٹواکر ان کی جگہ اکبربگٹی کو نامزدکروایاتھا جس کے نتائج بعد میں ہم سب پاکستانیوں نے دیکھے آپ بلوچستان کے کسی بھی علاقے کاجائزہ لے لیں مٹھی بھرمسلح افراد کے سوا عوام کی اکثریت محب وطن ہے اسلام پرعمل کرنے والی ہے مگر صوبائی اوروفاقی حکومتوں کی غلطیوں کے نتیجے میں وہ ان مٹھی بھرمسلح افراد کے ہاتھوں ملک کے دیگر خطوں کے عوام کی مانند یرغمال بنتی جارہی ہے اس لیے ضرورت اس امرکی ہے کہ اس تمام صورتحال کابھرپورجائزہ لیاجائے تاکہ بلوچستان کے عوام بھی ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ یہ بڑی ہی حیرت انگیز اوردکھ بھری بات ہے کہ بلوچستان جو رقبے کے اعتبارسے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اس صوبے کے مسائل کے بارے میں میڈیا جس میں پریس اور الیکٹرانک چینل بھی شامل ہیں حقائق کو یکسراندازکرکے محض یک طرفہ طورپر جس طرح بلوچستان کی صورتحال پیش کرر ہا ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ میں لاہورکراچی اور اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے سینئر صحافیوں اور ایڈیٹروں اورچینل کے اینکرپرسن سے ادب و احترام کے ساتھ اپیل کرتاہوں کہ یقیناً بلوچستان کی صورتحال کے بارے میں عوام کو بتائیں مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ بلوچستان کے دوردراز علاقوں کا دورہ بھی کریں اوربلوچ عوام کی اصل رائے سے بھی پاکستانی عوام اور دنیا کو آگاہ کریں تاکہ عوام تک سچ اورجھوٹ پہنچ جائے بلوچستان یقیناً پسماندگی کاشکارہے ایسا بھی ہے کہ یہاں تعلیم کی کمی ہے غربت بھی ہے اور بے روزگاری بھی ہے مگر اس کی اصل وجہ وہ نہیں ہے جس کو اکثرمیڈیا میں یا چینلوں میں آئے ہوئے مہمان بیان کرتے ہیں۔ بلوچستان کے عوام انتہائی محب وطن ہیں اور پاکستان کی خاطرہرطرح کی قربانی دینے کے لیے تیارہیں۔

”بلوچستان کا زلزلہ ‘آزمائش وانتباہ

”بلوچستان کا زلزلہ ‘آزمائش وانتباہ“
 

29اکتوبر کی شب4بجے بلوچستان کے طول وعرض بالخصوص زیارت میں تباہ کن زلزلہ آیا جس نے سینکڑوں جیتے جاگتے انسانوں کو چشم زدن میں موت کی نیند سلادیا‘ درجنوں دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ سینکڑوںافراد زخمی‘ ہزاروں بے گھر ہوگئے درجنوں شہرودیہات کھنڈرات میں بدل گئے‘رات کے پچھلے پہر سینکڑوں لوگوں کو موت کی آغوش میں سلانے والا یہ زلزلہ پاکستان کے سولہ کروڑ نیند کے متوالوں اور انکی غافل قیادت کی آنکھیں کھولنے اور ان کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کا کارنامہ بھی انجام دے سکتا ہے؟؟ کیا اس چشم کشا انتباہ پر بھی ہماری آنکھیں تھکتی ہیں یا ہم محو غفلت رہتے ہیں؟؟ قرآن نے انسانوں کو سوچنے سمجھنے اورفہم وادراک کی جو صلاحیتیں دی ہیں ان کا خاصہ ہی یہ ہے کہ وہ جہاں حوادثِ زمانہ کے اسباب واحوال کا ادراک اورمطالعہ کرتا ہے وہیں ان طبعی حقائق کو زندگی کے حقیقی اسباب کی تفہیم کا ذریعہ بناتا ہے۔ قرآن پاک گزری ہوئی قوموں کی تباہی کے جو رونگٹے کھڑے کردینے والے واقعات بیان کرتا ہے وہ صرف ان قوموں کے انجام کا تذکرہ ہی نہیں بلکہ قیامت تک سب انسانوں کےلئے اوربالخصوص اہل ایمان کےلئے انتباہ کا سامان بھی لئے ہوئے ہیں۔ ”پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اس سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ ہماری گرفت اچانک ان پررات کے وقت نہ آجائے گی جبکہ وہ سوئے پڑے ہوں؟یا انہیں اطمینان ہوگیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا؟ جبکہ وہ کھیل رہے ہوں؟ کیا یہ لوگ اللہ کی تدبیروں سے بے خوف ہیں؟حالانکہ اللہ کی تدبیر سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو“(سورہ¿ اعراف ) قرآن درحقیقت سابقہ قوموں کے حد سے گزرجانے کے واقعات کاتذکرہ کرکے ہمیں تعلیم دے رہا ہے کہ ماضی سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنے حال کی اصلاح کی جانب مائل ہوں۔پوراقرآن غور وفکر کی قدم قدم پر تعلیم دیتا ہے کہ یہ حوادث جہاں طبعی اسباب رکھتے ہیں وہیں ان کے پیچھے چشم کشا اخلاقی عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں۔ حضرت عمروبن عاصؓ کی روایت ہے کہ آپنے ارشاد فرمایا: ”کوئی قوم ایسی نہیں ہے کہ اس میں بدکاری عام ہو مگر یہ کہ وہ قحط سالی میں گرفتار ہوجاتی ہے اورکوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں رشوت پھیل جائے مگر یہ کہ اس پر خوف اوردہشت طاری ہوجاتی ہے“۔ قرآن پاک نے زمانے کے نشیب وفراز اورقوموں کے عروج وزوال کی نشاندہی کرکے ہمیں انتباہ کیا ہے کہ ہم حوادث زمانہ سے یونہی نہ گزرجائیں بلکہ ان میں جو معنویت پوشیدہ ہے اس کو سمجھیں اوراللہ کی زمین کو فساد پھیلانے والے عناصر سے بچائیں حقیقت یہ ہے کہ جب اللہ کی گرفت ہوتی ہے تو من حیث القوم ہوتی ہے اور تباہ صرف بدکردار ہی نہیں ہوتے بلکہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتے ہیں اور باغی اورفسادی معاشرے کے ہرفرد کو اس بغاوت کی سزاملتی ہے خواہ کوئی ذاتی طور پرکتنا ہی باکردارکیوں نہ ہو۔ ”اوربچوں اس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف انہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو اور جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے“(سورہ¿ انفال) ایک چیز جو بالکل واضح ہو کر ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ جو مصیبت بھی انسانوں پر آتی ہے وہ بے سبب نہیں ہوتی ایسا ہر واقعہ جہاں دلوں کو افسردہ کرنے والا ہو وہیں اس سے ہماری آنکھیں بھی کھلنا چاہئیں کہ اللہ کو مطلوب یہ ہے کہ ہماری انفرادی اوراجتماعی زندگی سے ظلم‘بگاڑ‘طغیانی اورفساد ختم ہو۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ لرزا دینے والا نبی پاک کا وہ ارشاد ہے جو ترمذی میں حضرت ابوہریرہؓ سے مذکور ہے۔ ”جب مال غنیمت کو ذاتی مال سمجھا جانے لگے اور امانت کو مالِ غنیمت سمجھ لیا جائے‘ زکواة ادا کرنا جرمانہ اورچٹی بن جائے اور علم حاصل کرنے کا مقصد دین پر عمل کرنا نہ ہو اور مرد اپنی ماں کی نافرمانی کرتے ہوئے بیوی کی بات ماننے لگے اورباپ سے دوری اختیار کرکے اور اس کے مقابلے میں دوست کی قربت چاہے ‘مسجدوں میں شور ہونے لگے۔ جس قبیلے کا سردار فاسق ہو جائے اور قوم کا سربراہ گھٹیا انسان بن جائے اورآدمی کی عزت اس کے شر سے محفوظ رہنے کےلئے کی جانے لگی آلاتِ موسیقی کثرت سے ظاہر ہوجائیں‘ شراب پی جانے لگے‘ اس امت کا آنے والا گروہ گزرجانے والے گروہ پر لعنت ملامت کرنے لگے( جب ایسی صورتحال ہو تو) تم انتظار کرو سرخ آندھیوں کا‘ زلزلوں کا‘ زمین کے دھنس جانے کا‘ صورتوں کے بگڑ جانے کا‘ آسمان سے نازل ہونے والے عذاب کا اور یہ نشانیاں یکے بعد دیگرے اس طرح نازل ہونے لگیں گی جیسے تسبیح کا دھاگہ ٹوٹ جائے تو اس کے دانے مسلسل گرنے لگتے ہیں“۔ اسی بات کو سورہ¿ ھود میں یوں بیان کیا گیاہے۔ ” اور تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ناحق تباہ کردے حالانکہ اس کے باشندے اصلاح احوال کرنے والے ہیں“۔ اس وقت جہاں زلزلے کے متاثرین کی مدد ہماری ذمہ داری ہے وہیں خلوصِ دل کے ساتھ توبہ واستغفار اورانفرادی واجتماعی خوداحتسابی بھی بہت ضروری ہے تاکہ اللہ کے غضب سے بچا جاسکے اللہ ہماری حالت کیونکر بدلے گا جبکہ ہم خود ان حالات سے نکلنے کا داعیہ ہی نہ رکھتے ہوں اس وقت امدادی کاموں کے ساتھ ساتھ جو چیز اشد ضروری ہے وہ یہ کہ ہم ان مقاصد کے حصول کےلئے عزم نو کریں جن کے حصول کےلئے یہ ملک خدا داد ہم نے حاصل کیا تھا۔یہ سوال اس وقت کی سب سے اہم ضرورت بن گیا ہے کہ رمضان کی ستائیسویں شب کو حاصل ہونے والے اس ملک میں ہم نے اللہ کے دشمنوں کا ساتھ دیا۔ ہم نے اپنے بھائیوں پر بندوق چلانے کے لئے خود اپنے کندھے پیش کئے ہم نے اپنی معیشت کو ظلم واستحصال کی بنیادوں پر استوار کیا جس کے نتیجے میں ایک زرعی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ آٹا بن گیا۔ جن کا کام جان ومال اور عزت وآبرو کا تحفظ تھا وہ خود سب سے بڑا مسئلہ بن گئے ۔ جب فواحش پر تو کوئی پابندی نہ ہو اور مساجد ومدارس پابند ہوں۔ جب فکر اور تہذیب‘سیاست اورمعیشت ہر چیز کا سودا سستے داموں کرلیا جائے اور عوام حکمرانوں سے بدظن ہوں تو تاریخ کا مطالعہ تو یہی بتاتا ہے کہ پھر رب کا تازیا نہ حرکت میں آتا ہے‘ یہ وقت بہترین وقت ہے اپنی بداعمالیوں پر نظر ڈالنے کا اس انتباہ سے روشنی حاصل کرنے کا ۔ وہ روشنی اس طرح حاصل ہوگی کہ توبہ واستغفار کے ساتھ ساتھ ہم عہد بھی کریں کہ ٭....فحش اور بے حیائی کے کاموں کے قریب بھی نہ جائیں گے چاہے کھلے ہوں یا چھپے۔ ٭....اپنی ذمہ داریاں فرض شناسی اورخدمت کے جذبے سے ادا کریں گے۔ ٭....کسی بھی بدعنوانی میں حصہ دار نہیں بنیں گے۔ ٭....اللہ کی زمین پر نہ ظلم کریں گے نہ ظلم ہونے دیں گے۔ لیکن جن کے دل اب بھی نہیں لرزے اب بھی اصلاح کی جانب مائل نہیں ہوئے وہ یقینا کسی دوسرے زلزلے کے منتظر ہیں....!!!

بلوچستان ....سرسے اونچاہوتا پانی

بلوچستان ....سرسے اونچاہوتا پانی

پروفیسر شکیل صدیقی 
جب سے ہم نے ہوش سنبھالاہے یہ سنتے اوردیکھتے آئے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں ہرسال پاکستان کا یوم آزادی اسی طرح دھوم دھام سے منایاجاتاہے جس طرح پاکستان میں ‘جب کہ بھارت کا یوم آزادی ہرسال پوری وادی میں یوم سیاہ اور یوم سوگ کے طورپر منایاجاتاہے۔ اس سال بھی 14 اگست کو پاکستان کا63 واں یوم آزادی سرینگرسمیت تمام شہروں اور قصبوں میں روایتی جوش وجذبہ کے ساتھ منایاگیا جگہ جگہ پاکستانی پرچم لہرائے گئے اورکشمیریوں نے پاکستان زندہ باد اور جیوے جیوے پاکستان کے نعرے بلند کیے ‘جبکہ اگلے روز یعنی 15 اگست کو بھارت کا یوم آزادی یوم سیاہ اور یوم سوگ کے طورپرمنایاگیا اس موقع پر مقبوضہ وادی میں مکمل شٹرڈاﺅن رہا تمام تجارتی وکارو بار ی مراکز اور سرکاری تعلیمی ادارے بنداور سڑکوں پرٹریفک معطل رہا‘ مظاہرین نے بھارت کے خلاف اورپاکستان کے حق میں شدید نعرے بازی کی‘ بھارتی فوجیوں نے پاکستان کا پرچم لہرانے والے اورآزادی کا نعرہ بلندکرنے والے چار جوانوں کو شہیدبھی کردیا۔ یوم آزادی کے موقع پرکشمیریوں کی پاکستان سے والہانہ عقیدت ومحبت اور بھارت سے نفرت حقارت کے اظہار پرہمارا خون سیروں بڑھ جایا کرتاہے‘ ہم پاکستان کے ساتھ کشمیریوں کے والہانہ اور غیرمتزلزل رشتہ وتعلق پرکل بھی فخرکرتے تھے اور آج بھی فخرکرتے ہیں لیکن اس سال ہمارے اپنے وطن میں بھی یوم آزادی پریوم سوگ اور یوم سیاہ کی خبروں نے سرشرم سے جھکادیے ہیں‘ بلوچستان‘پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے‘ اطلاعات کے مطابق اس سال بلوچستان میں یوم آزادی یوم سوگ کے طورپرمنایاگیا۔ قوم پرست جماعتوں کی اپیل پر 14 اگست کو شٹرڈاﺅن رہا تمام چھوٹے بڑے کاروباری مراکز بندرہے اوریوم سیاہ منایاگیا‘ اسکولوں میں یوم آزادی کی کوئی تقریب منعقدنہ ہوسکی‘کوئٹہ‘ تربت‘ پنجگوراورحب میں قومی پرچم کے بجائے سیاہ پرچم لہرائے گئے۔ اس سال 14 اگست کو یوم آزادی کے موقع پر بلوچستان میں جوکچھ ہوا اس پر اہل وطن تو دل گرفتہ ہیں لیکن بھارت نے مقبوضہ کشمیر کابدلہ بلوچستان سے لینے پر ضرورجشن منایاہوگا۔ 11 اگست کو قوم پرست جماعتوں کی اپیل پر بلوچستان کا یوم آزادی منایاگیا‘ اس موقع پر آزاد بلوچستان کے پرچم لہرائے گئے اور ریلیاں نکالی گئیں جبکہ لندن میں مقیم خان آف قلات میر سلیمان داﺅد نے آزاد اورخودمختار بلوچستان کے قیام کے لیے ”کونسل فارانڈیپینڈنٹ بلوچستان“ کا باضابطہ اعلان کرتے ہوئے کہاکہ اقوام متحدہ اور یورپی یونین کی ثالثی کے بغیر پاکستان سے مفاہمت کے امکان کو مستردکردیا ۔انہوں نے کہاکہ آزاد وخود مختار بلوچستان کا قیام ہماری جدوجہد کا محورہے اور اسی مقصد کے حصول کے لیے کونسل فار انڈیپینڈنٹ بلوچستان“ تشکیل دیاگیاہے۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران بلوچستان کے حالات میں جو غیرمعمولی اور ہولناک تبدیلی آئی ہے اگرچہ اس کی تاریخ بھی پاکستان کے قیام کی تاریخ کے ساتھ وابستہ ہے تاہم جنرل (ر) پرویز مشرف کے حکم پر نواب اکبرخان بگٹی کے قتل کے بعد حالات تیزی سے خراب ہوئے ہیں۔ بلوچستان علیحدگی کی جس راہ پرگامزن ہے اس پر ”ٹرائیکا“ کی سرد مہری حیران کن ہے‘ گیلانی‘ زرداری اورکیانی صاحبان کی پراسرارخاموشی سے محب وطن قوتوں میں تشویش بجاہے‘ جماعت اسلامی تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) وہاں کے حالات پر آواز تو بلند کررہے ہیں لیکن نون لیگ جو دوسری بڑی جماعت ہے وہ اپنے حصہ کاکام پورا نہیں کررہی ہے۔ 11 اگست سے 14 اگست تک کے حالات کو دیکھتے ہوئے کہاجاسکتاہے کہ بلوچستان میں پانی سرسے اونچا ہوتاجارہاہے گیلانی صاحب کب کل جماعتی کانفرنس طلب کریں گے ؟ اور زرداری صاحب بلوچستان پیکج پر عمل درآمد کو آب کیسے یقینی بنائیں گی؟ اورکیانی صاحب ریٹ آف دی گورنمنٹ کیسے بحال کریں گی؟ بلوچستان کو بچانے کے لیے پارلیمنٹ کا بھی کوئی کردار ہے کہ نہیں ؟ من حیث القوم ہماری بھی کوئی ذمہ داری ہے کہ نہیں ؟ بلوچستان ہم سب کا مسئلہ ہے۔ بلوچوں کے زخم پر پھایا رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے اس لیے بلاتاخیر سب کو اپنے اپنے دائرے میں اپنا فرض اداکرنا ہوگا۔ ا