Sunday, August 23, 2009

بیرونی اور اندرونی قوتوں کا تختہ مشق بلوچستان
ثمرہ جمیل مرزا 
ایک ناقابل تردید تاریخی حقیقت جس کی بازگشت عملی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے‘ اس امر کی گواہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو ناقابلِ بیان نقصانات خود اپنے اندر سے مسلمانوں ہی کے ہاتھوں اپنی یا ان کی بداعمالیوں کے ذریعے پہنچے ہیں۔ آج وطنِ عزیز میں وہی اندر کی جنگ برپا ہے جو کھلے دشمن کے ساتھ ہونے والی جنگ سے بدرجہا خطرناک، دشوار اور تباہ کن ہے۔ اس سے قبل ایسی ایک جنگ 1971ءمیں ملک کو دولخت کرچکی ہے جو ہمارے سفاک دشمن کے زعمِ باطل کے مطابق مطالبہ¿ پاکستان کے بنیادی دوقومی نظریے کو خلیجِ بنگال میں ڈبو دینے کے مترادف تھی۔ یہ تو قادرِ مطلق کو منظور نہیں تھا‘ کہ جن محترم ہستیوں کو یہ نظریہ فیضانِ نظر کے طور پر عطا کیا گیا ان کی توہین ناقابلِ قبول ٹھیری اور اس جنگ کے تینوں آرکیٹکٹ ذلت و نامرادی کی حسرت ناک موت سے کیفر کردار کو پہنچے۔ البتہ یہ جنگ بہرحال اپنے منطقی انجام کو پہنچی اور برادرانِ قوم جنہوں نے 1947ءمیں اسی دو قومی نظریے کے حق میں اپنا تمام وزن ڈالا تھا اور جن کو سینے سے لگانے کے لیے ہمارے جسم میسر نہ آسکے وہ دشمن کے گلے لگ کر مشترکہ وطن کا گلا کاٹنے پر مجبور ہوگئے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ مشرقی پاکستان کی اس تمام صورت حال کے عوامل کی عدالتی تحقیقات کے لیے جسٹس حمود الرحمان کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا گیا تھا جس کی رپورٹ کا اُس وقت کے حکمرانوں جناب ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر مرد ِحق ضیاءالحق اور برسر اقتدار خصوصی رفقاءنے تفصیلی مطالعہ کیا اور اسے بلا وجہ اپنے اختیارات میں دفن کردیا۔ کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ حقائق کو عوام کے سامنے پیش کرسکے۔ وقت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ یہ رپورٹ اپنی تمام تر پابندیوں اور پیش بندیوں کے باوصف ہمارے دشمن کے ہاتھ جالگی اور ٹائمز آف انڈیا میں شائع ہوگئی۔ گویا اپنے مسخ شدہ چہرے کو دیکھنے کے لیے آئینہ بھی ہمارے ازلی دشمن نے فراہم کیا۔ رپورٹ کے مطابق ثابت ہوا کہ ہم نے یہ جنگ اپنے بیرونی دشمنوں لیکن اندرونی دوستوں کے بھرپور تعاون سے ہاری۔ لیکن اس رپورٹ کو ہماری عسکری اور سیاسی قیادتوں نے اپنے اپنے جرائم کی پردہ پوشی، نااہلی اور بدعنوانیوں کو عوام سے پوشیدہ رکھنے کے لیے برسر عام نہ ہونے دیا۔ ایک ایسی ہی تشویشناک صورت حال ملک کی شمال مغربی سرحدوں کے اندر اپنی پوری تباہ کاریوں کے ساتھ برپا ہی، جہاں وسیع علاقے میں عسکریت پسند قرار دیے جانے والوں کے خلاف کارروائی کے نام سے اہل وطن کے خلاف گرم جنگ جاری ہی، جبکہ بلوچستان میں ایک دوسری طرز کا بدرجہا تشویش خیز اور نتائج کے اعتبار سے خوفناک کھیل پڑوسی ملک بھارت اور افغانستان کے عملی تعاون اور امریکا کی منصوبہ بندی سے جاری ہے‘ جس کی بساط کے مہرے پست تر کردار کے حامل اور شخصی وقار سے محروم فردِ واحد کا ترتیب دیا ہوا مقتدرہ گروہ ہے جس میں ایسی صورت حال سے نبرد آزما ہونے کی نہ تو صلاحیت ہے اور نہ ہی قومی ترجیح ہے۔ وہ بلوچستان کو ایسے قیامت خیز حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اسلام آباد میں اپنی حکمرانی کی نمائش، خوش پوشی اور نئے بیرونی دوروں کی منصوبہ بندیوں میں مصروف ہیں۔ تصویر کا ایک رخ تو وہ ہے جس کی ابتدا سوئی گیس فیلڈ کالونی میں سرکاری ہسپتال کی ایک خاتون ڈاکٹر کی آرمی کیپٹن کے ہاتھوں مبینہ بے حرمتی پر جاری احتجاج سے ہوئی جس کے اثرات ملحقہ ڈیرہ بگٹی تک دراز ہوگئے۔ اس شرمناک واردات کو مقامی بگٹی آبادی نے اپنی توہین تصور کیا۔ یوں احتجاج میں شدت اور وسعت کے علاوہ گیس تنصیبات کو کچھ نقصان بھی پہنچایا گیا اور حالات بتدریج بگڑتے چلے گئے‘ یہاں تک کہ 16مارچ 2005ءکو ڈیرہ بگٹی میں بمباری کرکے تمندار نواب محمد اکبر بگٹی جیسے بزرگ سیاستدان اور نفیس انسان کو کوہلو کے پہاڑی سلسلے کی غلیظ غاروں میں پناہ لینے پر مجبور کردیا گیا۔ یہیں پر 26اگست 2006ءکو پاکستان کے سابق وزیر داخلہ، بلوچستان کے سابق گورنر اور وزیراعلیٰ نواب محمد اکبر بگٹی کو میزائلوں کے حملے میں اپنے متعدد جانثاروں کے ساتھ شہید کردیا گیا۔ نواب صاحب محترم کی شہادت سے پیدا ہونے والے جوشِ انتقام اور بدگمانیوں نے پورے صوبہ بلوچستان میں آج تک ایک طوفان برپا کررکھا ہے‘ لیکن یہ امر شرمناک حد تک قابلِ افسوس ہے کہ اسلام آباد کا حکمران طبقہ اس طوفان کی شدت کو کسی معقول پیمانے سے ناپنے سے قاصر ہی، بلکہ کسی قومی تعلق کی اساس پر مو¿ثر احساسِ ذمہ داری تک مفقود ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ کسی بھی تعلقِ خاطر کی بنیاد اعتبار اور ایفائے عہد پر ہوتی ہے۔ شکست ِعہد اور اعتبار کے بعد تعلق قائم رکھنا نہایت دشوار ہوتا ہے اور اسی شکست ِتعلق سے برآمد ہونے والی بداعتمادی خیر کی منازل تک پہنچانے وال شاہراہوں کو ناہموار، پیچیدہ اور مسدود کرڈالتی ہے۔ ایسے ہی حالات کا منطقی نتیجہ ہے کہ بلوچستان کی نئی نسل کا ملک سے جذباتی، قومی اور سماجی تعلق آہستہ آہستہ کمزور تر ہورہا ہے۔ اس زوال پذیر اعتماد اور تعلق کو بندوقوں، ٹینکوں اور فوجی چھاﺅنیوں کے ذریعے سے نہیں بلکہ صرف عدل اور انصاف کی قوت سے قائم رکھا جاسکتا ہے۔ آج حالات اس نہج پر پہنچ رہے ہیں کہ بلوچستان میں پیدا ہونے والے غیر بلوچ دادوں اور باپوں کی اولادوں کو خونریز انتقام کا نشانہ بنا کر اور ان گنت برسوں سے بسے ہوئے خاندانوں کو صوبے سے بے دخل کرنے کا عمل جاری ہے۔ خصوصی طور سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے خاندان خطرناک حد تک غیر محفوظ ہیں اور یہ ایسی صورت حال ہے جس کا بھرپور فائدہ بھارت اور امریکا اٹھا رہے ہیں‘ اور ان قوتوں کو فکری اور سیاسی مدد کے ذریعے مزید مضبوط کرنے میں اپنا گھناﺅنا کردار ادا کررہے ہیں جو ہمہ اقسام شدت پسند اور دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ بھارت کے اس شرمناک کردار کے واضح ثبوت، واقعاتی شہادتوں کے ساتھ شرم الشیخ کی غیر وابستہ ممالک کی کانفرنس میں ہمارے وزیراعظم نے پیش کیے تھے۔ یہ وہی بھارت ہے جس کی محبت ہمارے صدر محترم کے اعلانات میں پھوٹتی رہتی ہے‘ جو واشنگٹن کی لَے پر نہایت ڈھٹائی سے کیے جاتے رہے اور سفاک بھارت کو اپنے لیے کوئی خطرہ قرار نہ دینے کی طفلانہ بیان بازیاں کرتے رہے ہیں۔ صدر آصف زرداری نے چند ماہ پیشتر بلوچستان کے دورہ کے موقع پر بلوچستان سے گزشتہ برسوں میں روا رکھی گئی زیادتیوں پر معافی تو طلب کرلی تھی اور ان کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے خطیر رقوم مختص کرنے کے اعلانات بھی کیے‘ لیکن نا انصافیوں کا مستقل ازالہ کرنے کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت یا پیش رفت سامنے نہیں آرہی۔ بلوچوں سے فوری انصاف کی ایک عملی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ ان کے مطالبے کے مطابق جنرل پرویز مشرف اور اس کے خلاف ِقانون احکامات کی بجا آوری میں ملوث افراد پر بلالحاظ ِعہدہ اور ادارہ جاتی تعلق کے نواب محمد اکبر بگٹی کے بہیمانہ قتل کے الزام میں مقدمہ قائم کیا جائے اور ملک کی اعلیٰ عدلیہ سے جرم ثابت ہونے پر مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ یہاں یہ سوال غالباً ضرور اٹھے گا کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی جنہوں نے پرویز مشرف سے وزارتِ عظمیٰ کا حلف لیا اور صدر آصف زرداری جنہوں نے پرویز مشرف کے نامزد غیر آئینی چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر سے حلف لیا وہ آمر پرویز مشرف کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے کوئی کردار ادا کرنے کا حوصلہ اور جرا¿ت کریں گی؟ (جاری ہے)

No comments:

Post a Comment