Sunday, August 23, 2009

بلوچستان سے جنوبی پنجاب تک
سید منور حسن 
بلوچستان اس وقت بارود پر بیٹھا ہواہے، مختلف علاقوں سے پاکستان کا پرچم اتار دیا گیاہے، قومی ترانہ پڑھنے پر پابندی ہے، آباد کاروں اور دوسرے صوبوں سے آنے والوں کی ٹارگٹ کلنگ ہورہی ہے۔یہ سب باتیں ایک سو ایک فیصد بھی درست ہوسکتی ہیں لیکن مسئلہ زیربحث یہاں سے شروع نہیں ہوتا۔بگاڑ کا آغاز فوجی آپریشن سے ہوا۔بھٹو،ضیاءاور مشرف دور میں ہونے والے تین آپریشن تو بہت نمایاں ہیںاور ان کے ذریعے بلوچوں کو بہت زخم لگے ہیں۔ اس کے باوجود اگر وہ پاکستان کے اندر رہ کر اپنا حق اور صوبائی خودمختاری مانگتے ہیں تو یہ قابل تحسین بات ہے۔ اتنے آپریشنز کے بعدبھی اگر وہ پاکستان میں شامل ہیں تو ان کو داد دینی چاہیے بجائے اس کے کہ ان پرطرح طرح کے الزامات لگائے جائیں اور طعنے دیے جائیں کہ تمھارارویہ حب الوطنی کے منافی ہے۔ یہ مسئلہ صرف قوم پرستی کا نہیں ہے، لوگ اس طرح اظہار خیال سے معاملات کو کنفیوژ کرتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ بلوچوں کے ساتھ ظلم ہواہے اورانھیں آئینی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ بلوچوں کوان کے حقوق دینے اور انھیں برابر کا شہری تسلیم کرنے کے بجائے اسلام آباد کی ہرحکومت اوراسٹیبلشمنٹ نے کمیٹیاں دے کراور امدادی پیکیجز کااعلان کرکے انھیں بہلا نے کی کوشش کی۔چوہدری شجاعت حسین کمیٹی، سید مشاہد حسین کمیٹی،ڈاکٹر بابراعوان کمیٹی۔”کمیٹیاں دے کے بہلایاگیاہوں‘ ‘۔ یاپھر مختلف امدادی پیکیجز کا اعلان ہوا،پرویز مشرف کے بعد آصف زرداری صاحب نے بھی دو مرتبہ اربوں روپے کے پیکیج کا وعدہ کیا، معافیاں مانگیں مگربلوچوں کو ملتا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس طرح تو زیادہ دیرتک بچے بھی نہیں بہلتے۔ بلوچ دانا و بینا ہیں، اپنے تجربے سے بھی انھوں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ دودھ کے جلے ہیں چھاچھ کو پھونک پھونک کر پی رہے ہیں۔وہ نادان تو نہیں ہیں کہ ہمیشہ کھوکھلے نعروں اور جھوٹے وعدوں سے بہل جائیں۔ وزیراعظم نے حالات کی سنگینی کے پیش نظر بلوچستان پر اے پی سی کا اعلان کیا تھا مگر اب انھوں نے اس مسئلے پر خاموشی اختیار کرلی ہے۔ہم مسلسل یہ بات کہتے رہے ہیں کہ بلوچستان کے مسئلے پر اے پی سی ضرور ہونی چاہیے مگر پورے ہوم ورک کے ساتھ ہونی چاہیے۔ روٹھے ہوئے بلوچوں کومنایاجائے کیونکہ ان کی شرکت کے بغیر ہونے والی اے پی سی بے معنی ہوگی۔ بلوچوں کی کچھ شرائط ایسی ہیں جن کو اے پی سی سے پہلے مان لینا چاہیے تاکہ ان کو یقین ہو کہ ہم سے دھوکہ نہیں کیا جارہاہے اور ہمارے لیے کوئی جال نہیں بچھایا جارہاہے۔ صوبائی خودمختاری اور وسائل پربلوچوں کا حق تسلیم کرنے جیسے مطالبات پراے پی سی سے پہلے ہی عملدرآمد کردینا چاہیے۔ اسی طرح اکبر بگٹی کے قتل کی ایف آئی آر پرویز مشرف کے خلاف درج کی جائے اور اسے کٹہرے میں لایا جائے۔پرویز مشرف نے اسلام آباد میں کھڑے ہوکراکبر بگٹی کو دھکی کے انداز میں کہا تھا کہ” ایک چیزآکر تم کو ہٹ کرے گی اور تمھیں پتہ بھی نہیں چلے گا۔“ واقعی ایک چیز نے آکر اسے ہٹ کیا اور اسے پتہ بھی نہیں چلا۔ پھر اقوام متحدہ کے امریکی اہلکار جان سولیکی کی رہائی میں اہم کردار ادا کرنے والے تین بلوچ رہنماو¿ں جنھیں شہدائے تربت کا نام دیا گیاہے، کے قتل کی ایف آئی آرمقتولین کے ورثا کی مرضی کے مطابق درج کی جانی چاہیے۔ اس حوالے سے ایک اور بڑی اہم بات یہ ہے کہ بلوچوں نے پورے ہوم ورک کے ساتھ سینکڑوں بلوچوں کی فہرست جاری کی ہے جو لاپتہ ہیں۔ ان میں ایک سو بیس کے قریب خواتین بھی ہیں۔ زمین ان کو نگل گئی ہے، آسمان اچک کر لے گیا ہے۔ یہ کسی کے باپ ہیں،کسی کے بیٹے ہیں،کسی کے بھائی ہیں، کسی کے شوہر ہیں، کسی کی مائیں ہیں، کسی کی بیٹیاں ہیں، کسی کی بہنیں ہیں۔ حکومت کو بتانا چاہیے کہ یہ مرد وخواتین کہاں ہیںاور کس حال میںہیں۔اور ہمدردانہ رویہ اپناتے ہوئے ان کی فوری بازیابی کے لیے اقدامات کرنے چاہیےں۔ یہ بارہ سو تو” اسلامی دہشت گرد“ ہونے کے الزام سے بھی پاک ہیں۔کسی کے ساتھ بھی اس طرح کا ناروا سلوک کیاجائے،زیادتی اور ظلم پر مبنی رویہ اختیار کیا جائے تو طبیعت اور مزاج ایک انتقامی ذہن میںڈھل جاتاہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ جنوبی پنجاب میں بھی بلوچستان جیسامنظر نامہ تخلیق کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ اگروہاں بھی آپریشن شروع ہوجاتا ہے تو ایک خوفناک منظر نامہ وجودمیں آئے گااورپورے ملک میں ایک انتشار اور انارکی کی کیفیت پیدا ہوگی۔ ہماری اطلاع کے مطابق ڈیرہ غازی خان میں بلوچستان اور ڈیرہ اسماعیل خان سے ملحقہ پہاڑی علاقوں اور دروں پر ملٹری اور پیراملٹری فورسز نے قدم جما لیے ہیں، مورچے بنا لیے ہیں۔ پلوں پر اپنے ڈیرے بسالیے ہیں۔سڑکوں پرپیراملٹری فورسز کا گشت جاری ہے، دریائی پتنوں پر کشتیوں کے ذریعے آنے جانے والوں کی تلاشی لی جاتی ہے اور ویسے حالات پیدا کیے جارہے ہیں جیسے سوات میں ابتدائی دنوں میں تھے۔ ڈی جی خان کے مدرسے میں سرچ آپریشن، بارود کا ٹرک پکڑنے اور پولیس مقابلے کی من گھڑت خبر چلوائی گئی۔واقعہ شادن لونڈمیں نہیں بلکہ اس کے قریب سیہانی بستی میں ہواجو ڈاکو¿وں کی بستی کے نام سے مشہور ہے،اور وہاں سرے سے مدرسہ ہی نہیں ہے۔ جرائم پیشہ افراد کے اڈے کو ایک سازش کے تحت مدرسے کا رنگ دیاگیاجبکہ ملزمان کے خلاف تونسہ اور دیگر تھانوں میں منشیات اور اسلحے کی اسمگلنگ اور پولیس مقابلوں کے کئی مقدمات درج تھے۔ میاں چنوں میں ہونے والے دھماکے کی جگہ کو بھی مدرسے کا نام دیا گیا۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ ابھی تک خاموش ہیں کہ ڈیرہ غازی خان اور میاں چنوں میں جو ڈرامہ رچایا گیا،اور امریکی جن پنجابی طالبان کی دہائی دے رہے ہیں، ان کے خلاف فوجی آپریشن کی بات کررہے ہیں، اور رحمان ملک جس کی گواہی دے رہے ہیں، اس پر ان کا کیا مو¿قف ہے۔ کیونکہ وہ اس سوات آپریشن کے تو بڑے حامی ہیںاور اس کوناگزیر سمجھتے ہیں جس کے نتیجے میں اڑتیس لاکھ لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ پنجاب کے عوام جاننا چاہتے ہیں کہ جنوبی پنجاب میں جس آپریشن کی تیاریاں ہورہی ہیںوہ اس کی حمایت کریں گے یا اس بارے میں کوئی اور دلیل ہے جو وہ لوگوں کو فراہم کریں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکمرانوں کو آنکھیں کھولنی چاہییںاوران حالات کو ازخو دیکھنا چاہیے، ان کی باریکیوں کا سمجھنااوران کا توڑ کرنا چاہیے۔ انھیںپاکستان میں امریکی ایجنڈے کو لے کر چلنے اور اس کی ترجیحات کی ترجمانی کرنے سے باز آجانا چاہیے۔ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ وطن عزیز میںانارکی پھیلے، فوج اور عوام باہم دست و گریبان ہوں،فرقے اور مسلک ایک دوسرے سے لڑنا شروع کردیں، کراچی اور اس کے گردونواح میں لسانی وحدتیں اورا کائیاں بکھر جائیں اور لوگ ایک دوسرے کے مقابلے پر ہوں۔اور اس انارکی کے نتیجے میں اسے کہوٹہ تک پہنچنے اور ہمارے ایٹمی اثاثوں کو اقوام متحدہ کی تحویل میں دینے کے لیے پروپیگنڈے میں سہولت حاصل ہوجائے۔ اگر ہمارے حکمران یہ بات نہیں سمجھتے ہیںتو عوام کو یہ بات لازماً سمجھنی چاہیے اورپاکستان کو امریکی چراگاہ بننے سے بچانے کے لیے ”گوامریکہ گو“تحریک کا بھرپورساتھ دیناچاہیے۔

No comments:

Post a Comment