Sunday, August 23, 2009

”بلوچستان کا زلزلہ ‘آزمائش وانتباہ

”بلوچستان کا زلزلہ ‘آزمائش وانتباہ“
 

29اکتوبر کی شب4بجے بلوچستان کے طول وعرض بالخصوص زیارت میں تباہ کن زلزلہ آیا جس نے سینکڑوں جیتے جاگتے انسانوں کو چشم زدن میں موت کی نیند سلادیا‘ درجنوں دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ سینکڑوںافراد زخمی‘ ہزاروں بے گھر ہوگئے درجنوں شہرودیہات کھنڈرات میں بدل گئے‘رات کے پچھلے پہر سینکڑوں لوگوں کو موت کی آغوش میں سلانے والا یہ زلزلہ پاکستان کے سولہ کروڑ نیند کے متوالوں اور انکی غافل قیادت کی آنکھیں کھولنے اور ان کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کا کارنامہ بھی انجام دے سکتا ہے؟؟ کیا اس چشم کشا انتباہ پر بھی ہماری آنکھیں تھکتی ہیں یا ہم محو غفلت رہتے ہیں؟؟ قرآن نے انسانوں کو سوچنے سمجھنے اورفہم وادراک کی جو صلاحیتیں دی ہیں ان کا خاصہ ہی یہ ہے کہ وہ جہاں حوادثِ زمانہ کے اسباب واحوال کا ادراک اورمطالعہ کرتا ہے وہیں ان طبعی حقائق کو زندگی کے حقیقی اسباب کی تفہیم کا ذریعہ بناتا ہے۔ قرآن پاک گزری ہوئی قوموں کی تباہی کے جو رونگٹے کھڑے کردینے والے واقعات بیان کرتا ہے وہ صرف ان قوموں کے انجام کا تذکرہ ہی نہیں بلکہ قیامت تک سب انسانوں کےلئے اوربالخصوص اہل ایمان کےلئے انتباہ کا سامان بھی لئے ہوئے ہیں۔ ”پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اس سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ ہماری گرفت اچانک ان پررات کے وقت نہ آجائے گی جبکہ وہ سوئے پڑے ہوں؟یا انہیں اطمینان ہوگیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا؟ جبکہ وہ کھیل رہے ہوں؟ کیا یہ لوگ اللہ کی تدبیروں سے بے خوف ہیں؟حالانکہ اللہ کی تدبیر سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو“(سورہ¿ اعراف ) قرآن درحقیقت سابقہ قوموں کے حد سے گزرجانے کے واقعات کاتذکرہ کرکے ہمیں تعلیم دے رہا ہے کہ ماضی سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنے حال کی اصلاح کی جانب مائل ہوں۔پوراقرآن غور وفکر کی قدم قدم پر تعلیم دیتا ہے کہ یہ حوادث جہاں طبعی اسباب رکھتے ہیں وہیں ان کے پیچھے چشم کشا اخلاقی عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں۔ حضرت عمروبن عاصؓ کی روایت ہے کہ آپنے ارشاد فرمایا: ”کوئی قوم ایسی نہیں ہے کہ اس میں بدکاری عام ہو مگر یہ کہ وہ قحط سالی میں گرفتار ہوجاتی ہے اورکوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں رشوت پھیل جائے مگر یہ کہ اس پر خوف اوردہشت طاری ہوجاتی ہے“۔ قرآن پاک نے زمانے کے نشیب وفراز اورقوموں کے عروج وزوال کی نشاندہی کرکے ہمیں انتباہ کیا ہے کہ ہم حوادث زمانہ سے یونہی نہ گزرجائیں بلکہ ان میں جو معنویت پوشیدہ ہے اس کو سمجھیں اوراللہ کی زمین کو فساد پھیلانے والے عناصر سے بچائیں حقیقت یہ ہے کہ جب اللہ کی گرفت ہوتی ہے تو من حیث القوم ہوتی ہے اور تباہ صرف بدکردار ہی نہیں ہوتے بلکہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتے ہیں اور باغی اورفسادی معاشرے کے ہرفرد کو اس بغاوت کی سزاملتی ہے خواہ کوئی ذاتی طور پرکتنا ہی باکردارکیوں نہ ہو۔ ”اوربچوں اس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف انہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو اور جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے“(سورہ¿ انفال) ایک چیز جو بالکل واضح ہو کر ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ جو مصیبت بھی انسانوں پر آتی ہے وہ بے سبب نہیں ہوتی ایسا ہر واقعہ جہاں دلوں کو افسردہ کرنے والا ہو وہیں اس سے ہماری آنکھیں بھی کھلنا چاہئیں کہ اللہ کو مطلوب یہ ہے کہ ہماری انفرادی اوراجتماعی زندگی سے ظلم‘بگاڑ‘طغیانی اورفساد ختم ہو۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ لرزا دینے والا نبی پاک کا وہ ارشاد ہے جو ترمذی میں حضرت ابوہریرہؓ سے مذکور ہے۔ ”جب مال غنیمت کو ذاتی مال سمجھا جانے لگے اور امانت کو مالِ غنیمت سمجھ لیا جائے‘ زکواة ادا کرنا جرمانہ اورچٹی بن جائے اور علم حاصل کرنے کا مقصد دین پر عمل کرنا نہ ہو اور مرد اپنی ماں کی نافرمانی کرتے ہوئے بیوی کی بات ماننے لگے اورباپ سے دوری اختیار کرکے اور اس کے مقابلے میں دوست کی قربت چاہے ‘مسجدوں میں شور ہونے لگے۔ جس قبیلے کا سردار فاسق ہو جائے اور قوم کا سربراہ گھٹیا انسان بن جائے اورآدمی کی عزت اس کے شر سے محفوظ رہنے کےلئے کی جانے لگی آلاتِ موسیقی کثرت سے ظاہر ہوجائیں‘ شراب پی جانے لگے‘ اس امت کا آنے والا گروہ گزرجانے والے گروہ پر لعنت ملامت کرنے لگے( جب ایسی صورتحال ہو تو) تم انتظار کرو سرخ آندھیوں کا‘ زلزلوں کا‘ زمین کے دھنس جانے کا‘ صورتوں کے بگڑ جانے کا‘ آسمان سے نازل ہونے والے عذاب کا اور یہ نشانیاں یکے بعد دیگرے اس طرح نازل ہونے لگیں گی جیسے تسبیح کا دھاگہ ٹوٹ جائے تو اس کے دانے مسلسل گرنے لگتے ہیں“۔ اسی بات کو سورہ¿ ھود میں یوں بیان کیا گیاہے۔ ” اور تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ناحق تباہ کردے حالانکہ اس کے باشندے اصلاح احوال کرنے والے ہیں“۔ اس وقت جہاں زلزلے کے متاثرین کی مدد ہماری ذمہ داری ہے وہیں خلوصِ دل کے ساتھ توبہ واستغفار اورانفرادی واجتماعی خوداحتسابی بھی بہت ضروری ہے تاکہ اللہ کے غضب سے بچا جاسکے اللہ ہماری حالت کیونکر بدلے گا جبکہ ہم خود ان حالات سے نکلنے کا داعیہ ہی نہ رکھتے ہوں اس وقت امدادی کاموں کے ساتھ ساتھ جو چیز اشد ضروری ہے وہ یہ کہ ہم ان مقاصد کے حصول کےلئے عزم نو کریں جن کے حصول کےلئے یہ ملک خدا داد ہم نے حاصل کیا تھا۔یہ سوال اس وقت کی سب سے اہم ضرورت بن گیا ہے کہ رمضان کی ستائیسویں شب کو حاصل ہونے والے اس ملک میں ہم نے اللہ کے دشمنوں کا ساتھ دیا۔ ہم نے اپنے بھائیوں پر بندوق چلانے کے لئے خود اپنے کندھے پیش کئے ہم نے اپنی معیشت کو ظلم واستحصال کی بنیادوں پر استوار کیا جس کے نتیجے میں ایک زرعی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ آٹا بن گیا۔ جن کا کام جان ومال اور عزت وآبرو کا تحفظ تھا وہ خود سب سے بڑا مسئلہ بن گئے ۔ جب فواحش پر تو کوئی پابندی نہ ہو اور مساجد ومدارس پابند ہوں۔ جب فکر اور تہذیب‘سیاست اورمعیشت ہر چیز کا سودا سستے داموں کرلیا جائے اور عوام حکمرانوں سے بدظن ہوں تو تاریخ کا مطالعہ تو یہی بتاتا ہے کہ پھر رب کا تازیا نہ حرکت میں آتا ہے‘ یہ وقت بہترین وقت ہے اپنی بداعمالیوں پر نظر ڈالنے کا اس انتباہ سے روشنی حاصل کرنے کا ۔ وہ روشنی اس طرح حاصل ہوگی کہ توبہ واستغفار کے ساتھ ساتھ ہم عہد بھی کریں کہ ٭....فحش اور بے حیائی کے کاموں کے قریب بھی نہ جائیں گے چاہے کھلے ہوں یا چھپے۔ ٭....اپنی ذمہ داریاں فرض شناسی اورخدمت کے جذبے سے ادا کریں گے۔ ٭....کسی بھی بدعنوانی میں حصہ دار نہیں بنیں گے۔ ٭....اللہ کی زمین پر نہ ظلم کریں گے نہ ظلم ہونے دیں گے۔ لیکن جن کے دل اب بھی نہیں لرزے اب بھی اصلاح کی جانب مائل نہیں ہوئے وہ یقینا کسی دوسرے زلزلے کے منتظر ہیں....!!!

No comments:

Post a Comment