Sunday, August 23, 2009

بلوچستان ....سرسے اونچاہوتا پانی

بلوچستان ....سرسے اونچاہوتا پانی

پروفیسر شکیل صدیقی 
جب سے ہم نے ہوش سنبھالاہے یہ سنتے اوردیکھتے آئے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں ہرسال پاکستان کا یوم آزادی اسی طرح دھوم دھام سے منایاجاتاہے جس طرح پاکستان میں ‘جب کہ بھارت کا یوم آزادی ہرسال پوری وادی میں یوم سیاہ اور یوم سوگ کے طورپر منایاجاتاہے۔ اس سال بھی 14 اگست کو پاکستان کا63 واں یوم آزادی سرینگرسمیت تمام شہروں اور قصبوں میں روایتی جوش وجذبہ کے ساتھ منایاگیا جگہ جگہ پاکستانی پرچم لہرائے گئے اورکشمیریوں نے پاکستان زندہ باد اور جیوے جیوے پاکستان کے نعرے بلند کیے ‘جبکہ اگلے روز یعنی 15 اگست کو بھارت کا یوم آزادی یوم سیاہ اور یوم سوگ کے طورپرمنایاگیا اس موقع پر مقبوضہ وادی میں مکمل شٹرڈاﺅن رہا تمام تجارتی وکارو بار ی مراکز اور سرکاری تعلیمی ادارے بنداور سڑکوں پرٹریفک معطل رہا‘ مظاہرین نے بھارت کے خلاف اورپاکستان کے حق میں شدید نعرے بازی کی‘ بھارتی فوجیوں نے پاکستان کا پرچم لہرانے والے اورآزادی کا نعرہ بلندکرنے والے چار جوانوں کو شہیدبھی کردیا۔ یوم آزادی کے موقع پرکشمیریوں کی پاکستان سے والہانہ عقیدت ومحبت اور بھارت سے نفرت حقارت کے اظہار پرہمارا خون سیروں بڑھ جایا کرتاہے‘ ہم پاکستان کے ساتھ کشمیریوں کے والہانہ اور غیرمتزلزل رشتہ وتعلق پرکل بھی فخرکرتے تھے اور آج بھی فخرکرتے ہیں لیکن اس سال ہمارے اپنے وطن میں بھی یوم آزادی پریوم سوگ اور یوم سیاہ کی خبروں نے سرشرم سے جھکادیے ہیں‘ بلوچستان‘پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے‘ اطلاعات کے مطابق اس سال بلوچستان میں یوم آزادی یوم سوگ کے طورپرمنایاگیا۔ قوم پرست جماعتوں کی اپیل پر 14 اگست کو شٹرڈاﺅن رہا تمام چھوٹے بڑے کاروباری مراکز بندرہے اوریوم سیاہ منایاگیا‘ اسکولوں میں یوم آزادی کی کوئی تقریب منعقدنہ ہوسکی‘کوئٹہ‘ تربت‘ پنجگوراورحب میں قومی پرچم کے بجائے سیاہ پرچم لہرائے گئے۔ اس سال 14 اگست کو یوم آزادی کے موقع پر بلوچستان میں جوکچھ ہوا اس پر اہل وطن تو دل گرفتہ ہیں لیکن بھارت نے مقبوضہ کشمیر کابدلہ بلوچستان سے لینے پر ضرورجشن منایاہوگا۔ 11 اگست کو قوم پرست جماعتوں کی اپیل پر بلوچستان کا یوم آزادی منایاگیا‘ اس موقع پر آزاد بلوچستان کے پرچم لہرائے گئے اور ریلیاں نکالی گئیں جبکہ لندن میں مقیم خان آف قلات میر سلیمان داﺅد نے آزاد اورخودمختار بلوچستان کے قیام کے لیے ”کونسل فارانڈیپینڈنٹ بلوچستان“ کا باضابطہ اعلان کرتے ہوئے کہاکہ اقوام متحدہ اور یورپی یونین کی ثالثی کے بغیر پاکستان سے مفاہمت کے امکان کو مستردکردیا ۔انہوں نے کہاکہ آزاد وخود مختار بلوچستان کا قیام ہماری جدوجہد کا محورہے اور اسی مقصد کے حصول کے لیے کونسل فار انڈیپینڈنٹ بلوچستان“ تشکیل دیاگیاہے۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران بلوچستان کے حالات میں جو غیرمعمولی اور ہولناک تبدیلی آئی ہے اگرچہ اس کی تاریخ بھی پاکستان کے قیام کی تاریخ کے ساتھ وابستہ ہے تاہم جنرل (ر) پرویز مشرف کے حکم پر نواب اکبرخان بگٹی کے قتل کے بعد حالات تیزی سے خراب ہوئے ہیں۔ بلوچستان علیحدگی کی جس راہ پرگامزن ہے اس پر ”ٹرائیکا“ کی سرد مہری حیران کن ہے‘ گیلانی‘ زرداری اورکیانی صاحبان کی پراسرارخاموشی سے محب وطن قوتوں میں تشویش بجاہے‘ جماعت اسلامی تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) وہاں کے حالات پر آواز تو بلند کررہے ہیں لیکن نون لیگ جو دوسری بڑی جماعت ہے وہ اپنے حصہ کاکام پورا نہیں کررہی ہے۔ 11 اگست سے 14 اگست تک کے حالات کو دیکھتے ہوئے کہاجاسکتاہے کہ بلوچستان میں پانی سرسے اونچا ہوتاجارہاہے گیلانی صاحب کب کل جماعتی کانفرنس طلب کریں گے ؟ اور زرداری صاحب بلوچستان پیکج پر عمل درآمد کو آب کیسے یقینی بنائیں گی؟ اورکیانی صاحب ریٹ آف دی گورنمنٹ کیسے بحال کریں گی؟ بلوچستان کو بچانے کے لیے پارلیمنٹ کا بھی کوئی کردار ہے کہ نہیں ؟ من حیث القوم ہماری بھی کوئی ذمہ داری ہے کہ نہیں ؟ بلوچستان ہم سب کا مسئلہ ہے۔ بلوچوں کے زخم پر پھایا رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے اس لیے بلاتاخیر سب کو اپنے اپنے دائرے میں اپنا فرض اداکرنا ہوگا۔ ا

No comments:

Post a Comment