Sunday, August 23, 2009

بلوچستان........ اغیار کی حریصانہ توجہ کا مرکز
کرنل غلام سرور 
معروف دانشور جاویدانور کے بقول ڈالر کے ”بلیک کنگ“ یا ”کالی دیوی“ کا اصل نشانہ بلوچستان ہے۔ صوبہ بلوچستان پاکستان کے کل رقبے کے 48 فیصد پر محیط ہے۔ مگر ملک کی صرف 4 فیصد آبادی یہاں بستی ہے۔ بلوچستان کے معدنی دولت کی فراوانی کا یہ عالم ہے کہ اس کی زمین میں پوشیدہ جملہ خزانوں کے ساتھ ساتھ یورینیم جیسے معدنی خزانے بھی موجود ہیں۔ اس کی زمینوں کے نیچے سیال سونا بھی بہتا ہے اور اس سیال سونے کی صرف ایک ذیلی پیداوار وہ گیس ہے جس پر وطن عزیز کے بیشتر کارخانوں کا انحصار ہے اور جس کی بدولت ہماری بستیوں کے گھروں میں چولہے جل رہے ہیں۔ بلوچستان میں چین کی مدد سے تیار کردہ گوادر پورٹ کو ملکی معیشت میں انتہائی اہمیت حاصل ہے اور اس کی جغرافیائی اور تزویراتی اہمیت کے پیش نظر پاکستان دشمن طاقتوں پر خوف اور سراسیمگی کی کیفیت طاری ہے اس گوادر پورٹ نے بحیرہ عرب کے تین ساحلوں کو اپنے قریب کردیا ہے۔ اس کی اسی اہمیت کے پیش نظر عالمی سطح پر امریکی ایماءپر اس طرح کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے کہ بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرکے اسے عملی اعتبار سے امریکا کی بالادستی میں دے دیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کو پاکستان سے کاٹ کر امریکی تحویل میں دینا اس عظیم عالمی سیاسی کھیل کا حصہ ہے جسے گلوبلائزیشن (Globalization) کے ماہر اور کتابوں کے مصنف پیپ سکوبار (Pep Escobar) نے بڑی تفصیل سے امریکا کے اصل عزائم کو طشت ازبام کرتے ہوئے اپنے ایک حالیہ مضمون میں Pipelistan کی سیاست پر روشنی ڈالی ہے اور کہا ہے کہ یہ دراصل ایپی ٹاپی (Ipi Tapi) کے مابین جنگ ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ ایران پاکستان اور بھارت کے مابین مجوزہ پائپ لائن منصوبے کو (Peace pipeline) بھی کہا جاتا ہے طے شدہ پروگرام کے تحت پائپ لائن نے بلوچستان سے گزر کر بھارت کا رخ کرنا تھا مگر امریکا اس منصوبے کا شروع سے ہی مخالف رہا ہے۔ اس کی بجائے وہ ٹاپی (Tapi) پر عمل درآمد چاہتا ہے جو ترکمانستان‘ افغانستان‘ پاکستان اور بھارت کے درمیان پائپ لائن ہوگی۔ یہ پائپ لائن منصوبے کے مطابق امریکا کے زیر اثر ترکمانستان سے نکل کر مغربی افغانستان میں ہرات سے ہوتی ہوئی اور ایک حصہ قندھار سے لیتی ہوئے قندھار سے گزرے گی۔ جانے یہ منصوبہ کب پایہ تکمیل تک پہنچے گا۔ سردست اس کا کوئی علم نہیں۔ اس وقت تو صورتحال کچھ یہ ہے کہ اس پائپ لائن سے تیل اور گیس کی بجائے مسلمانوں کا خون بڑی بھاری مقدار میں بہہ رہا ہے۔ اسی بناءپر واقفان حال اس پائپ لائن کو خون کی پائپ لائن کے نام سے پکارنے لگے ہیں۔ واشنگٹن کی تازہ ترین سوچ یہ ہے کہ وہ کابل میں متحارب مجاہدین قوتوں کو منظر سے ہٹا کر طالبان کو لانا چاہتا تھا تاکہ وہ ان کی مدد سے پائپلستان کے منصوبے کو عملی جامعہ پہنا سکے۔ لیکن طالبان نے پائپلستان کی مجوزہ کھدائی سے انکار کردیا اور اب ان کی اس گستاخی کا حشر ہم سب کے سامنے ہے۔ امریکا کی یہ مخصوص ادا ہے کہ ایسے افراد جو اس کے چشم ابرو کے اشارے پر رقص کرنے سے اپنی معذوری ظاہر کریں انہیں وہ عبرت کا نشانہ بناکر دم لیتا ہے۔ امریکا اب یہ چاہتا ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل کاکام پاکستان کے سپرد کردیا جائے اور اس کے تعاون سے پائپلستان کی کھدائی کا اہتمام کرنا چاہتا ہے۔ فنی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پائپلستان کی کھدائی کے عمل میں موجود پاکستان کا نصف حصہ بھی متاثر ہوگا۔ ظاہر ہے کہ اگر عوام اور افواج کو اس منصوبے پر مامور کردیا گیا تو اس کے خوشگوار نتائج برآمد نہ ہوں گے۔ لہٰذا اس منصوبے کی حتمی منظوری دینے سے پہلے اس کے مختلف پہلوﺅں کا بغور جائزہ لینا بے حد ضروری ہے۔ ہم نے اپنی گفتگو کا آغاز ان عناصر کے حوالے سے کیا تھا جنہوں نے اپنے اپنے مخصوص مقاصد کے پیش نظر بلوچستان پر نظریں گاڑ رکھی ہیں مگر اس کا کیا علاج کہ ہماری بات خونی پائپ لائن پر جا ٹوٹی جس کی ان دنوں ہنگامی بنیادوں پر منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ اب ہم اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ امریکا‘ یورپی ممالک اور وسطی ایشیائی ممالک سب بلوچستان کے معاملات میں اتنی غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کیوں کررہے ہیں؟۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ بلوچستان کو جغرافیائی لحاظ سے وسط ایشیاءمیں ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روس نے افغانستان پر حملہ کرنے کے بعد بلوچستان کے ذریعے وسطی ایشیا سے تجارت اور دیگر اہم معاملات مین اس کی بالادستی کی صلاحیت شناخت کرلی تھی اور ساتھ ہی یہ بھی واضح حقیقت ہے کہ پاکستان‘ بلوچستان کے راستے پر ایران‘ عراق‘ چین‘ افغانستان اور ہندوستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کو فروغ دے کر بڑی طاقت بننے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوسکتا ہے۔ تجارت‘ ٹیکنالوجی‘ معاشیات اور صنعت کی پیداوار پر اس کی گرفت مضبوط ہوسکتی ہے علاوہ ازیں وسطی ایشیاءاور مشرق وسطیٰ کے ممالک کی گیس اور تیل کی دولت کو بھی سمندر کے راستے یورپی ممالک تک باآسانی پہنچا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو بلوچستان کے بارے میں امریکا اور روس کی خصوصی دلچسپی کا جواز دکھائی دینے لگتا ہے۔ امریکا کی بلوچستان سے دلچسپی کا سبب یہ ہے کہ وہ ایک طویل مدتی پروگرام کے تحت چاہتا ہے کہ بلوچستان کے خطہ سے یورپی تک ایک محفوط اور قابل اعتماد راہ ہموار کرے اور وہ اس راہ کی بدولت ایشیائی ممالک‘ خصوصی طور پر بلوچستان‘ خلیج اور ایران سے تیل اور گیس متعدد امریکی ممالک اور یورپ تک لے جاسکے گا۔ اس مقصد کے لیے بلوچستان بحر ہند اور وسطی ایشیا کیلئے مختصر ترین راہ فراہم کرسکتا ہے اور امریکا یہ سہولت میسر آنے کے بعد چین پر بھی نگاہ رکھ سکے گا۔ بلوچستان سے خلیجی ممالک کا فاصلہ بھی کوئی زیادہ نہیں۔ امریکی اکابرین کی سوچ کے مطابق جب حالات سازگار ہوں تو امریکا وسطی ایشیا سے گیس اور تیل گوادر وہاں سے پسنی تک لے جاسکے گا جہاں سے امریکا کے لیے اس تیل اور گیس کا متحدہ امریکی ممالک تک لے جانا آسان ہوگا۔ اور آخر میں بلوچستان سے تعلق کے بارے میں امریکی عزائم کی جھلک آپ نے دیکھی۔ امریکا اور دوسرے کئی ممالک بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کے در پے ہیں مگر ہم ان طاقتوں کو بروقت آگاہ کیے دیتے ہیں کہ اگر انہوں نے اپنی سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی تو انہیں جون کی تپتی دوپہر کو تارے دکھائی دینے لگیں گے۔ آزمائش شرط ہے۔!!

No comments:

Post a Comment