Thursday, September 10, 2009

بلوچ عوام کے زخموں پر مرہم لگانے کیلئے تمام وعدے پورے کرینگے،آصف زرداری

جمعرات ستمبر 10, 2009

nullاسلام آباد ( وقائع نگار خصوصی ، ایجنسیاں ) صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ بلوچ عوام کے زخموں پر مرہم لگانے کے لئے ان کے ساتھ کئے جانے والے وعدوں کو ہر صورت پورا کیا جائے گا، بلوچستان کو ترقی دے کر قومی دھار ے میں لانے سمیت صوبے کی تمام ضروریات کو پورا کیا جائے گا، بلوچ محب وطن پاکستانی ہیں پارلیمانی کمیٹی برائے بلوچستان کی سفارشات پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے گا ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایوان صدر میں گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی سے ملاقات کے دوران کیا جس میں صوبے میں امن و امان کی صورتحال، بلوچستان کے ترقیاتی منصوبے، ٹار گٹ کلنگ اور دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا گیا ملاقات کے دوران صدر آصف زرداری نے کہا کہ بلوچستان کا احساس محرومی ختم کرنے کے لئے ان کے تمام مسائل کو حل کرنے سمیت صوبے کو مالی طور پر مضبوط بنایا جائے گا جبکہ حکومت نے پہلے ہی بلوچستان کی ترقی کیلئے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا ہوا ہے جسے بروقت مکمل کیا جائے گا ذرائع کا کہنا تھا کہ ملاقات کے دوران گورنر بلوچستان نے صوبے میں امن و امان اور ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے صدر پاکستان کو آگاہ کیا ایوان صدر میں آسٹریلیا کے لئے نامزد ہائی کمشنر مسز فو ز یہ نسرین ، ازبکستان اور تھائی لینڈ کے لئے نامزد سفراء محمد واجد الحسن اور سہیل محمود نے اپنی نئی سفارتی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لئے متعلقہ ممالک روانگی سے قبل صدر سے ملاقات کی صد ر نے کہا کہ بیرون ممالک متعین پاکستانی ہائی کمشنر اور سفراء پاکستان کا امن پسند تشخص کو اُ جا گر کرنے اور ملک میں اقتصادی و توانائی بحران کے خاتمے کے لئے کوششیں تیز کریں جبکہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کے فروغ اور باہمی تجارتی حجم میں اضافے کے لئے اقدامات کئے جائیں اِ س موقع پر صدر زرداری نے کہا کہ نئی ہائی کمشنر اور سفراء متعلقہ ممالک کی حکومتوں کے ساتھ دوستانہ روابط کے فروغ کے لئے کام کریں خاص طور پر بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی ہر ممکن مدد کی جائے جو ملک کو تر سیلات زر کی فراہمی اور زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے لئے انتہائی اہم کردار ادا کر رہے ہیں جبکہ تمام ممالک کے ساتھ معاشی و اقتصادی سطح پر بہترین تعلقات اور بیرونی سرمایہ کاری کو پاکستان کی جانب سے راغب کرنے کی ضرورت پر زور دیا ۔ آسٹریلیا کے لئے نامزد ہائی کمشنر سے ملاقات میں صدر کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا ایشیا کا انتہائی اہم ملک ہے جہاں مقیم 5ہزار پاکستانیوں کی فلاح و بہبود کے لئے اقدامات، پاک آسٹریلیا باہمی تجارت، پاکستان میں آسٹر یلو ی سرمایہ کاری کے فروغ، زراعت ، کان کنی ، پھلوں کی پرو سسنگ اور توانائی شعبے تعاون بڑھانے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کو یقینی بنائیں جبکہ آسٹریلیا میں پاکستانی طلباء کے لئے زیادہ سے زیادہ و ظا ئف کے حصول کو یقینی بنایا جائے تا کہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے خواہشمند طلباء فائدہ اُ ٹھا سکیں ازبکستان کے لئے نامزد سفیر کو پاک ازبک معاشی و اقتصادی تعلقات اور باہمی تجارتی حجم میں اضافے کے لئے سنجیدہ اقدامات کرنے کے لئے اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی ہدایت کی اور کہا کہ وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ پاکستان دیرینہ روابط میں بندھا ہے جو صدیوں پر محیط ہیں جبکہ پاک ازبک انسداد دہشت گردی میکا نزم کو مضبوط بنانے کے لئے سفیر اپنا بھر پور کردار ادا کریں تھائی لینڈ کے لئے نامزد سفیر سہیل محمود سے گفتگو کرتے ہوئے صدر نے کہا کہ پاکستان ایشیا ئی ممالک خصو صا آسیان ممبر ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو انتہائی اہمیت دیتا ہے اور نامزد سفیر آسیا ن ممالک کے ساتھ تجارتی ، اقتصادی و معاشی تعلقات کے فروغ کے لئے بہترین صلاحتیں بروئے کار لائیں دریں اثنا ء برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ دنیا وسائل مہیا کرے تو طالبان کے خلاف جنگ کو مزید علاقوں تک پھیلا سکتے ہیں پاکستان عالمی دہشت گردی میں اپنے مبینہ کردار کو درست کرنے کی کوشش کر رہا ہے جمہوریت کام کر رہی ہے ہم اختیار حاصل کر رہے ہیں ہم نے سیاسی ذمہ داری حاصل کر لی ہے چند گنے چنے لوگوں کے مقابلے میں پاکستان کے عوام دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے ساتھ ہیں ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو ایوان صدر میں برطانوی نشریاتی ادارے کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کیا ۔انٹرویو میں صدر آصف علی زرداری نے اپنی ایک سالہ کاکردگی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی فوج، ان کی حکومت اور جمہوریت نتائج دے سکتے ہیں لہذ ا دنیا کو چاہیے کہ وہ ان کی مزید مد کریں ہماری کوشش یہ ہے کہ اس ایک سالہ کوشش کا اعتراف کیا جائے اسے تسلیم کیا جائے کہ ہاں پاکستانی فوج، پاکستانی حکومت اور جمہوریت نتائج دی سکتے ہیں لہذ ا ان کی مزید امداد کی جائے انہوں نے برطانوی پولیس کے پاکستان میں آکر کارروائی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگر وہ ان کی پولیس سے بہتر ہوتے تو وہ ضرور اس تجویز کو قبول کر لیتے لیکن ایسا نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں سب سے بڑا مسئلہ وسائل کا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر دنیا انہیں وسائل مہیا کرے تو وہ طالبان کے خلاف جنگ کو مزید علاقوں تک پھیلا سکتے ہیں۔اسامہ بن لادن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہلاک ہوچکے ہیں۔افغانستان کا ذکر کرتے ہوئے صدر نے مطالبہ کیا کہ گزشتہ ہفتے کندوز میں ہونے والے حملے سے ہلاکتوں کی عالمی سطح پر تحقیقات کروائی جائیں۔ ایک افغان حقوق انسانی کی تنظیم کے مطابق اس حملے میں ستر عام شہری مارے گئے تھے۔صدر کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ادارے افغانستان میں موجود ہیں اور ماضی میں بھی وہ اس قسم کی تحقیقات کر چکی ہیں۔افغان صدارتی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بارے میں صدر کا کہنا تھا کہ ابھی ان الزامات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ تاہم انہوں نے صدر کرزئی کی حمایت کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ وہ خود ان کی اگلی مدت کے لیے حلف برداری کی تقریب میں موجود ہوں گے اپنے دور حکومت کے دوران اپنی سب سے بڑی کامیابی کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’یہ تاریخ اور وقت ہی بتائے گا‘ صدر نے بتایا کہ وہ رواں ماہ امریکی صدر بار اک او با ما اور برطانوی وزیراعظم گور ڈن بر اؤن کے ہمراہ نیو یارک میں فرینڈز آف پاکستان کے سربراہی اجلاس کی مشترکہ صدارت کریں گے جو پاکستان کو درپیش چیلنجوں اور خطے کے مسائل حل کرنے کے لیے ایک سیاسی پلیٹ فارم ثابت ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ دنیا کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کو دہشت گردی اور انتہا پسندی سے پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کرے طالبان کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ان پر قابو پانا دنیا کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ صدر نے گلگت بلتستان پیکیج کے حوالے سے بعض حلقوں کے اعتراض کو کہ اس سے کشمیر کا ز کے لیے کوششیں ختم ہو جائیں گی بلاجو از قرار دیا

Sunday, September 6, 2009

وفاق اور بلوچستان میں خلیج بڑھ سکتی ہے؟

Friday, 10 April, 2009, 09:02 GMT 14:02 PST

وفاق اور بلوچستان میں خلیج بڑھ سکتی ہے؟

مظاہرہ

نواب اکبر بگٹی اور بالاچ خان مری کی ہلاکت کے بعد جس طرح صوبے بھر میں بے ساختہ ہنگامے ہوئے لیکن اب کی بار اس سے بھی زیادہ شدت سے احتجاج ہو رہا ہے: ڈاکٹر نعمت اللہ

پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں تین قوم پرست رہنماؤں کے قتل سے جمہوری حکومت کی سیاسی مصالحت کی کوششوں کو جہاں بڑا دھچکہ پہنچا ہے وہیں یہ واقعہ مسلح مزاحمت کو مزید تقویت بخشنے کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔

غلام محمد بلوچ، لالہ منیر اور شیر محمد بلوچ کو تربت کی ضلعی عدالتی احاطے سے سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد نے گزشتہ جمعہ کو اغوا کیا اور بدھ کی شب ان کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں۔

جمعرات اور جمعہ کو بلوچستان بھر میں ان ہلاکتوں کے خلاف ہنگامے ہوئے، سڑکیں اور بازار بند کروائے گئے اور توڑ پھوڑ کی گئی۔ تین رہنماؤں کے قتل پر بلوچستان کے علاوہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے بلوچ آبادیوں والے علاقوں میں بھی احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔

بلوچستان کے ایک ماہر تعلیم اور دانشور ڈاکٹر نعمت اللہ گچکی کہتے ہیں کہ نواب اکبر بگٹی اور بالاچ خان مری کی ہلاکت کے بعد بھی صوبے بھر میں ہنگامے ہوئے لیکن اس بار اس سے بھی زیادہ شدت سے احتجاج ہو رہا ہے۔ پنجگور سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر نعمت اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ تینوں مقتول بلوچ رہنما نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور بلوچ نوجوانوں میں اپنے کردار کے حوالے سے بے حد مقبول تھے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جو آگ لگی ہوئی ہے وہ ان ہلاکتوں سے بھڑک اٹھے گی کیونکہ یہ واقعہ جلتی پر تیل کا کام کرے گا۔

ان کے مطابق ’ہمارے نوجوان اور ہم جیسے بزرگ جو جمہوریت کی بات کرتے ہیں، ان پر برہم ہیں اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ہاتھوں اس طرح کے قتل سے علیحدگی کی سوچ پروان چڑھے گی۔ اور یہ واقعہ حکومت کی مصالحت کی کوششوں کو ناکام بنادے گا۔۔۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی طاقتور قوتوں کو بلوچستان سے جان چھڑانے کی بڑی جلدی ہے۔‘

ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی طاقتور قوتوں کو بلوچستان سے جان چھڑانے کی بڑی جلدی ہے۔

ڈاکٹر نعمت اللہ

بلوچستان کے سیاسی رہنماؤں سینیٹر حاصل بزنجو اور سردار اختر مینگل سمیت اکثر نے تین بلوچ رہنماوں کے قتل کا الزام پاکستان کی انٹیلیجنس ایجنسیوں پر لگایا ہے لیکن فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے ان ہلاکتوں پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ملک دشمن عناصر کی کارروائی ہے۔ انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ قتل کے اس واقعہ سے حکومت کی مصالحتی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔ ان کے مطابق افواج پاکستان بلوچستان میں امن و امان کی کوششوں کی حمایت کرتی ہیں۔ ترجمان نے ان رہنماؤں کے ان بیانات پر افسوس ظاہر کیا جس میں بغیر حقائق جانے قتل کا الزام سیکورٹی ایجنسیز پر لگایا گیا ہے۔

فوجی ترجمان کے بیان پر بعض مبصرین کی رائے ہے کہ اس سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ یہ پاکستان کے بیرونی دشمنوں کی سازش ہو سکتی ہے لیکن اس صورت میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ تربت کے شہر سے تین رہنماؤں کو غیر ملکی ایجنٹ دن دہاڑے اغوا کر لیں۔ ان کے مطابق اگر ایک لمحے کے لیے یہ فرض بھی کیا جائے تو پھر یہ تو پاکستان کی تمام سکیورٹی ایجنسیوں کی ناکامی ہے کہ ایک دشمن ملک کے کارندے ایسا کرلیں۔

فوجی قیادت کا جو منتخب حکومت کے ساتھ ہنی مون تھا وہ ختم ہوتے نظر آرہا ہے اور اس سے حالات مزید خراب ہوں گے۔۔۔ یہ واقعہ بہت بڑی تبدیلی کا سبب بن سکتا ہے۔۔۔ وفاقی حکومت نے بھی ایک سال گزر گیا کچھ نہیں کیا۔۔۔ ایک دو سردار اور ان کے بچوں کو چھوڑ دیا لیکن سینکڑوں غریب گمشدہ بلوچوں کے لیے کچھ نہیں کیا۔

صدیق بلوچ

بلوچستان کے ایک سینیئر صحافی اور تجزیہ کار صدیق بلوچ کہتے ہیں کہ ’تین نوجوانوں کو ریاستی تحویل میں قتل کیا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ سویلین اداروں نے تو انہیں قتل نہیں کیا۔۔ بلوچستان کے گورنر خود کہتے ہیں کہ یہ دہشت گردی ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ ’فوجی قیادت کا جو منتخب حکومت کے ساتھ ہنی مون تھا وہ ختم ہوتا نظر آرہا ہے اور اس سے حالات مزید خراب ہوں گے۔۔۔ یہ واقعہ بہت بڑی تبدیلی کا سبب بن سکتا ہے۔۔۔ وفاقی حکومت نے بھی ایک سال گزر گیا کچھ نہیں کیا۔۔۔ ایک دو سردار اور ان کے بچوں کو چھوڑ دیا لیکن سینکڑوں غریب گمشدہ بلوچوں کے لیے کچھ نہیں کیا‘۔ یاد رہے کہ بلوچستان میں سنہ دو ہزار سے ملٹری انٹیلیجنس پر مبینہ طور پر بلوچ نوجوانوں کو اغوا اور قتل کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔

تین بلوچ رہنماؤں کے قتل سے بظاہر لگتا ہے کہ بلوچستان میں جاری سیاسی تحریک اور مسلح مزاحمت کو مزید تقویت ملے گی اور ان لوگوں کی سوچ کو فروغ مل سکتا ہے جو سمجھتے ہیں کہ پارلیمانی سیاست سے حقوق حاصل نہیں ہو سکتے۔

ڈاکٹر نعمت اللہ کہتے ہیں ’ہم جب جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو نوجوان پہلے ہی ہم پر ناراض ہوتے تھے اور اب اس طرح کے واقعات سے ہم جیسے لوگوں کی کوئی نہیں سنے گا اور بات دوسری طرف نکل جائے گی۔‘

کچھ مبصرین کی رائے ہے کہ صوبے کے قدرتی وسائل پر بلوچستان کا حقِ مالکیت تسلیم کرانے کی خاطر سرگرمِ عمل بعض بلوچ قومپرست رہنما جس طرح اپنے تین ساتھیوں کے قتل کا الزام ریاستی اداروں پر لگا رہے ہیں اس سے وفاق اور بلوچستان میں پہلے سے موجود اختلافات کی خلیج بھی بڑھ سکتی ہے۔

بلوچوں کو سمجھاؤ

: Sunday, 12 april, 2009, 13:27 GMT 18:27 PST

بلوچوں کو سمجھاؤ!

قوم پرست رہنماؤں کے قتل پر بلوچستان بھر میں پرتشدد مظاہرے ہوئے ہیں

چلیے مان لیا کہ بلوچستان میں جو بھی بدامنی ہے اس کے پیچھے بھارت کا اسلحہ، تربیت اور پیسہ ہے تا کہ کشمیر کا سکور برابر کیا جاسکے اور پاکستان کو مشرق اور مغرب سے گھیرا جا سکے۔ اور یہ کہ اس منصوبے کو امریکہ اور بعض امریکہ نواز خلیجی ممالک کی بھی خاموش تائید حاصل ہے۔

اگر یہ بات پچاس فیصد بھی درست ہے تو بھی بڑی خطرناک بات ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے کچھ فوری اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

یوں کریں کہ بلوچستان میں پچھلے آٹھ برس میں جتنے بھی زن و مرد غائب ہوئے ہیں انہیں تلاش کر کے کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے تاکہ سولہ کروڑ پاکستانیوں کی یہ دیکھ کر آنکھیں کھل جائیں کہ کیسے کیسے لوگ غیرملکی ایجنٹ بنے ہوئے تھے۔ اس سے ان عناصر کا منہ بھی بند ہوجائے گا جو آنکھ بند کر کے کہہ دیتے ہیں کہ لوگوں کو سرکاری ایجنسیاں غائب کررہی ہیں تاکہ بلوچستان کے وسائل پر قبضے کی مخالف آوازوں کو خاموش کیا جاسکے۔

اس سے پہلے کے غلام محمد بلوچ ، شیرمحمد بلوچ اور لالہ منیر کی لاشوں کو تربت کے ویرانوں میں پھینکنے والے پاکستان دشمن سرحد پار افغانستان یا بھارت فرار ہوجائیں انہیں پکڑنے کے لیے پوری طاقت لگا دی جائے تاکہ آئندہ ایسے کام کرنے والے غیرملکی ایجنٹ دس بار سوچیں۔

نئی نسل کو اس پروپیگنڈے سے بھی بچایا جائے کہ نواب اکبر بگٹی کو مشرف حکومت نے مارا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مشرف حکومت نواب صاحب کو عزت و احترام سے ڈیرہ بگٹی لانا چاہتی تھی۔لیکن یہ نواب بگٹی تھے جنہوں نے خود پر پہاڑ گرا لیا۔تاکہ وہ مرتے مرتے بھی وفاق کے خلاف بغاوت کا الاؤ روشن کر جائیں۔

چونکہ بلوچستان کے وزیرِ اعلی اسلم رئیسانی اور وفاقی وزیر میر اسرار اللہ زہری نے بلوچستان میں غیرملکی اشاروں پر امن تباہ کرنے والوں سے اظہارِ یکجہتی کیا ہے اس لیے انہیں فوری طور پر برطرف کرکے محبِ وطن بلوچستانیوں کے دل جیتے جائیں۔ اسی طرح بلوچستان کے قوم پرست رہنماؤں اختر مینگل ، حاصل بلوچ اور سپریم کورٹ بار کونسل کے صدر علی احمد کرد پر بغاوت کا مقدمہ چلایا جائے کیونکہ ان تینوں نے قوم پرست رہنماؤں کے قتل کا الزام بلاتحقیق سرکاری ایجنسیوں پر عائد کیا ہے۔اور یوں یہ رہنما غیرملکی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیلے ہیں۔

وقت آگیا ہے کہ بلوچستان کی نئی نسل کو شرپسندوں کی برین واشنگ سے بچانے کے لیے تعلیمی نصاب اور سرکاری ذرائع ابلاغ کا بھرپور تعمیری استعمال کیا جائے۔ اس نسل پر یہ حقیقت واضح کی جائے کہ بلوچستان جو پاکستان بننے سے پہلے ریاست قلات تھی، اسے زبردستی فیڈریشن میں شامل ہونے پر مجبور نہیں کیا گیا تھا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ خان آف قلات نے پاکستان میں شمولیت کے لیے روتے ہوئے گڑگڑا کر یہ کہتے ہوئے درخواست کی تھی کہ حضور اگر قلات پاکستان میں شامل نہیں ہوا تو ہم بلوچ کہیں کے نہیں رہیں گے۔

یہ حقیقت بھی نصاب کا حصہ بنائی جائے کہ ایوب خان نے باغی نواب نوروز خان اور ان کے ساتھیوں کو قران پر وعدہ کرنے کے باوجود پھانسی نہیں دی تھی بلکہ نواب نوروز خان اپنی بغاوت پر اتنے پشیمان تھے کہ انہوں نے مارے غیرت کے خود ہی اپنے گلے میں پھندا ڈال لیا۔

گرچہ بلوچستان کے عوام کی اکثریت ہمیشہ سے مٹھی بھر شرپسندوں کے خلاف رہی ہے۔ لیکن وقت آگیا ہے کہ اب اس سوال پر صوبے میں ریفرینڈم کروایا جائے کہ کیا آپ بلوچستان کے لیے اب تک کیے گئے ترقی و فلاح و بہبود کے اقدامات سے خوش ہیں؟؟؟ امید ہے کہ اس ریفرینڈم کے نتائج سے شرپسندوں کا رہا سہا اخلاقی دیوالیہ بھی نکل جائے گا۔

اور یہ بھی کہ وفاقی حکومت نے ماضی کی بے وفائیوں کو معاف کرتے ہوئے جب سن ستر کی دہائی میں بلوچ قوم پرستوں کو صوبے میں حکومت بنانے کا موقع دیا تو انہوں نے سوویت یونین اور بھارت سے مل کر علیحدگی کی سازش شروع کردی۔ لہذٰا بھٹو حکومت کو مجبوراً اس غداری کے خلاف پاکستان کے مفاد میں مسلح ایکشن لینا پڑ گیا اور عطا اللہ مینگل اور نواب خیر بخش مری جیسے عناصر کو سزا دینی پڑی۔

نئی نسل کو اس پروپیگنڈے سے بھی بچایا جائے کہ نواب اکبر بگٹی کو مشرف حکومت نے مارا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مشرف حکومت نواب صاحب کو عزت و احترام سے ڈیرہ بگٹی لانا چاہتی تھی۔لیکن یہ نواب بگٹی تھے جنہوں نے خود پر پہاڑ گرا لیا۔تاکہ وہ مرتے مرتے بھی وفاق کے خلاف بغاوت کا الاؤ روشن کر جائیں۔

اگرچہ بلوچستان کے عوام کی اکثریت ہمیشہ سے مٹھی بھر شرپسندوں کے خلاف رہی ہے۔ لیکن وقت آگیا ہے کہ اب اس سوال پر صوبے میں ریفرینڈم کروایا جائے کہ کیا آپ بلوچستان کے لیے اب تک کیے گئے ترقی و فلاح و بہبود کے اقدامات سے خوش ہیں؟؟؟ امید ہے کہ اس ریفرینڈم کے نتائج سے شرپسندوں کا رہا سہا اخلاقی دیوالیہ بھی نکل جائے گا۔

اس سوال پر بھی تحقیق ہونی چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا کہ مشرقی پاکستان کے ننانوے فیصد وفاق پرست عوام پر ایک فیصد پاکستان دشمن غالب آگئے حالانکہ پاکستان کی ہر حکومت نے مشرقی پاکستان کی ترقی اور فلاح و بہبود میں کبھی غفلت نہیں برتی۔

اس تحقیق کے نتائج کی روشنی میں وفاقی حکومت بلوچستان میں بھارتی اور امریکی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکے گی۔ دیکھیے جلدی سے ان تجاویز پر عمل کرلیجئے کہیں یہ نہ ہو کہ

مہلت تھی جب تو دل کو تھا بے کاریوں سے شغل
اب کام یاد آئے تو ، مہلت نہیں رہی !